کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 690
حکم دیاجاتا ہے کہ وہ دشمن سے اپنا دفاع کرے‘ یا نجاست کا ازالہ کرے۔اور اس طرح کی دیگر چیزیں اگرچہ گناہ کا کام نہ بھی ہو‘ مگر ان کے تکلیف دہ ہونے کی وجہ سے ان سے منع کیا جاتا ہے ۔ غم و ملال سے انسان کے دل کو تکلیف ہوتی ہے۔پس اس لیے ایسی چیز کا حکم دیا گیا جس سے غم کاازالہہوسکے؛ جیسا کہ گندکی دور کرنے کے لیے ایسی چیز کا حکم دیا جاتاہے جس سے یہ کام ممکن ہو۔ یہ غم بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں ملا تھا؛ یہ اطاعت تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور خیرخواہی۔اس میں کو ئی گناہ کاکام نہیں جو کہ قابل مذمت ہو۔ بلکہ اس غم کا سبب اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور دل کی کمزوری تھی جس پر کسی انسان کی مذمت نہیں کی جاسکتی۔اور اس چیز کا حکم دیا گیا جس سے دل میں استقامت و استقلال پیدا ہو؛ اور اس پر ثواب مل سکے۔
چوتھی بات:....اگر مان لیا جائے کہ :غمگین ہونا گناہ کا کام ہے؛ تو پھر بھی آپ اس کی ممانعت کاحکم آنے سے پہلے غمگین ہوئے تھے۔اورجب اس سے منع کردیا گیا تو دوبارہ آپ سے ایسی حرکت کا ارتکاب نہیں ہوا۔اور جوکام حرام ہونے سے پہلے ہوگیا ‘ اس پر کوئی گناہ نہیں ۔جیسا کہ لوگ شراب کی حرمت کاحکم نازل ہونے سے پہلے شراب پیا کرتے تھے ؛ اور جوا بھی کھیلتے تھے ؛ مگر جب ان کاموں کی ممانعت کا حکم نازل ہوگیا تو لوگ ان سے رک گئے؛ اور سچی توبہ کرلی ۔ جیسا کہ اس سے پہلے بیان کیا جاچکاہے۔
علامہ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا غمگین ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منع کرنے سے پہلے تھا۔اور اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کی رضامندی کا حصول تھا؛ اس لیے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں غمگین تھے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ بھی ان کے ساتھ تھا۔اللہ تعالیٰ کبھی بھی گناہ گاروں کے ساتھ نہیں ہوتا ؛ بلکہ ان کے خلاف ہوتاہے۔جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو منع کیا تو اس کے بعد کبھی بھی ابوبکر رضی اللہ عنہ غمگین نہیں ہوئے۔ اگر اعتراض کرنے والے ان کمینوں کو کوئی ذرابھر بھی حیاء ہوتی؛تو اس قسم کے اعتراض نہ کرتے۔اگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا غمگین ہونا عیب ہے تو یہی عیب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام پر بھی لازم آتا ہے۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرماتے ہیں :
﴿قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَکَ بِاَخِیْکَ وَ نَجْعَلُ لَکُمَا سُلْطٰنًا فَلَا یَصِلُوْنَ اِلَیْکُمَا بِاٰیٰتِنَآ اَنْتُمَا وَ مَنِ اتَّبَعَکُمَا الْغٰلِبُوْنَ ﴾ (قصص۳۵)
’’کہا ہم تیرے بھائی کے ساتھ تیرا بازو ضرور مضبوط کریں گے اور تم دونوں کے لیے غلبہ رکھیں گے، سو وہ تم تک نہیں پہنچیں گے، ہماری نشانیوں کے ساتھ تم دونوں اور جنھوں نے تمھاری پیروی کی، غالب آنے والے ہو۔‘‘
پھر جادو گروں کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ جب انہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا :