کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 689
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿خُذْہَا وَلَاتَخَفْ سَنُعِیْدُہَا سِیْرَتَہَا الْاُوْلٰی﴾ (طہ ۲۱)
’’اسے پکڑ واور ڈرونہیں ، عنقریب ہم اسے اس کی پہلی حالت میں لوٹا دیں گے۔‘‘
اس شیعہ سے کہا جائے گا: اگریہ خوف اطاعت کا کام تھا؛ تو یقیناً اس سے منع کیا گیا ہے۔اور اگر [تم شیعہ کے بقول] نافرمانی کا کام تھا تو پھر [پیغمبر کی طرف سے ] نافرمانی کی گئی۔
نیز یہ بھی کہا جائے گاکہ: آپ کو حکم دیا گیا تھا کہ مطمئن اور ثابت قدم رہیں ۔اس لیے کہ خوف تو انسان کے اختیار کے بغیر حاصل ہوتا ہے۔اس لیے کہ جب امن کے اسباب و موجبات نہیں تھے تو خوف لاحق ہوا۔ اور جب امن کے اسباب پیدا ہوگئے تو خوف زائل ہوگیا۔پس اللہ تعالیٰ کا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے یہ فرمانا کہ :
﴿وَلَاتَخَفْ سَنُعِیْدُہَا سِیْرَتَہَا الْاُوْلٰی﴾ (طہ ۲۱)
’’ اور ڈرو نہیں ، عنقریب ہم اسے اس کی پہلی حالت میں لوٹا دیں گے۔‘‘
اس حکم میں ساتھ ہی اس چیز کی خبر بھی دی گئی ہے جس سے خوف زائل ہوجائے گا۔
ایسے ہی اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے :
﴿ فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہٖ خِیْفَۃً مُّوْسٰیo قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی﴾ (طہ ۶۷۔۶۸)
’’تو موسیٰ نے اپنے دل میں ایک خوف محسوس کیا۔ہم نے کہا خوف نہ کر، یقیناً تو ہی غالب ہے۔ ‘‘
یہاں پر خوف کھانے سے منع کیا گیا اس کے ساتھ ہی خوف ختم ہونے کے موجبات بھی بیان کیے گئے ہیں ۔
یہی حال اس آیت میں وارد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا بھی ہے : ﴿ لَاتَخْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾’’ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘یہاں پر غمگین ہونے سے منع کیا گیا ہے ‘ اور اس کے ساتھ ہی غم نہ کرنے کا سبب بھی بیان کیا گیا ہے۔ اور وہ سبب ہے : ﴿ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾’’ بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘ جب ایسی بشارت مل جائے جس سے غم و حزن ختم ہوں تو یہ امور ختم ہوجاتے ہیں ۔ورنہ انسان کو غم و حزن بغیر اختیار کے لاحق ہوتے ہیں ۔
تیسری بات:....حزن وملال سے منع کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ واقعی غم و حزن پائے بھی جاتے ہیں ؛ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں ۔بلکہ یہ ممانعت اس لیے بھی وارد ہوسکتی ہے تاکہ جب غم و حزن کے اسباب پیدا ہوجائیں تو اس وقت غم و حزن نہ کیا جائے۔ اس صورت میں غم اگر معصیت اور گناہ کا کام بھی ہو تو اس سے کوئی نقصان نہیں ہوتا اور اگر غم ہو بھی تو پھر بھی ہم کہتے ہیں : ’’ اگر منہیٰ عنہ گناہ اورنافرمانی کا کام نہ ہو تو کبھی نہی تسلی و تعزیت اور ثابت قدمی کے لیے آتی ہے؛اس لیے کہ بیشتر اوقات بعض چیزیں غیر اختیاری طور پر ظاہر ہوجاتی ہیں ۔یہ غم و حزن بھی اسی باب سے تعلق رکھتے ہیں ۔
پس اس صورت میں ممانعت ایک مستحق ازالہ چیز سے ممانعت ہوگی؛ اگرچہ وہ گناہ کاکام نہ بھی ہو۔جیساکہ انسان کو