کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 687
سے بغض رکھتے ہیں ان کی مذمت میں ایسی روایات نقل کرتے ہیں جو حقیقت میں اس کے عکس پر ہوتی ہیں ۔ پس آپ نہیں دیکھیں گے جب بھی یہ لوگ کسی معاملہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی مذمت کرتے ہیں ‘اگروہ معاملہ واقعی مذموم ہو تو حضرت علی رضی اللہ عنہ پر زیادہ صادق آتاہے۔اور مدح کاکوئی پہلو ایسا نہیں ہوتا جس سے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مدح کرنا چاہتے ہوں ؛ اوروہ حقیقت میں بھی مدح کا پہلو ہو تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس کے زیادہ مستحق ہوتے ہیں ۔اس لیے کہ آپ تمام ممدوح امور میں زیادہ کامل ہیں اور تمام مذموم امور میں سب سے زیادہ بری ہیں ‘ خواہ یہ امور حقیقی ہوں یا خیالی ۔ [حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر بے صبری اوربے یقینی کی تہمت ]: [اعتراض]: رافضی مصنف نے کہاہے: ’’ یہ آیت آپ کی بے صبری پر دلالت کرتی ہے۔‘‘ [جواب]: رافضی کا یہ قول باطل ہے۔ آیت صبر کے معدوم [یاناقص] ہونے پردلالت نہیں کرتی۔ اس لیے کہ مصائب پر صبر کرنا کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں واجب ہے۔اور دل کا غمگین ہونا اس کے منافی ہر گز نہیں ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’ بیشک اللہ تعالیٰ آنکھوں کے آنسو پر نہیں پکڑتا؛ اور نہ ہی دل کی غمگینی اورحزن و ملال پر پکڑتا ہے؛ لیکن وہ زبان [سے نکلنے والی آہ و بکا]پر پکڑتا ہے ؛ یا پھر رحم فرمادیتا ہے ۔‘‘ [البخاري ۲؍۸۴؛ ومسلم ۲؍۶۳۶] [اعتراض]: رافضی مصنف نے کہاہے: ’’ یہ آیت عدم یقین باللہ پر دلالت کرتی ہے۔‘‘ [جواب]: یہ بات جھوٹ اور بہتان ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام بھی غمگین ہوتے رہے ہیں ۔یہ ان کے عدم یقین باللہ کی دلیل ہر گز نہیں ہوا۔جیساکہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارے میں قرآن میں ذکر کیا گیا ہے۔اور صحیحین میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لخت جگر ابراہیم کی وفات پر فرمایا تھا: ’’بیشک آنکھیں بہہ رہی ہیں ؛اور دل غمگین ہے؛اور ہم صرف وہی بات کہتے ہیں جو رب کو راضی کردے۔ اے ابراہیم! ہمیں تیری جدائی کا صدمہ ہے۔‘‘[1] اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غم کھانے سے منع کیا ہے ‘ ارشاد فرمایا : ﴿وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْہِمْ ﴾۔[النحل ۱۲۷]’’اوران پر غم نہ کھائیے۔‘‘ [اعتراض]:رافضی نے کہا ہے:’’ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قضاء و تقدیر پر عدمِ رضامندی؛ ظاہر کر رہے ہیں ۔‘‘ [جواب]: سابقہ کلام کی طرح یہ بھی جھوٹ اور باطل کلام ہے۔