کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 685
توابوبکر رضی اللہ عنہ غم زدہ ہونا آپ کے کمال ایمان و محبت اورموالات و خیر خواہی؛آپ کی حفاظت پر حرص‘ آپ کے دفاع؛اور آپ سے ہر قسم کی تکلیف و پریشانی دور کرنے پر مستعد ہونے کی دلیل ہے۔اگرچہ اس صورت میں غم کی وجہ سے انسان پرایک گونہ کمزوری آجاتی ہے ۔ پس یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ عدم حزن کے ساتھ ان صفات سے موصوف ہونا ہی آپ کے حق میں مامور بہ تھا۔ورنہ صرف غم و حزن سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوتا۔ اور اس میں کوئی ایسی دلالت نہیں جس سے اس فعل کا گناہ ہونا لازم آتا ہو جس پر ملامت کی جاسکتی ہو۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر غمگین ہونا انسان کی اپنی اولاد پر غمگین ہونے سے بڑھ کر ہے۔اس لیے کہ کسی بھی انسان کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اس کی اولاد کے لیے محبت سے بڑا واجب ہے۔ ٭ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارے میں خبر دی ہے کہ آپ اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام پر غمگین ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿یٰٓاَسَفٰی عَلٰی یُوْسُفَ وَ ابْیَضَّتْ عَیْنٰہُ مِنَ الْحُزْنِ فَہُوَ کَظِیْمٌ٭قَالُوْا تَاللّٰہِ تَفْتَؤُا تَذْکُرُ یُوْسُفَ حَتّٰی تَکُوْنَ حَرَضًا اَوْ تَکُوْنَ مِنَ الْھٰلِکِیْنَ٭ قَالَ اِنَّمَآ اَشْکُوْا بَثِّیْ وَ حُزْنِیْٓ اِلَی اللّٰہِ....﴾ [یوسف۸۴۔۸۶] ’’ ہائے میرا غم یوسف پر! اور اس کی آنکھیں غم سے سفید ہو گئیں ، پس وہ غم سے بھرا ہوا تھا۔انھوں نے کہا : اللہ کی قسم! تو ہمیشہ یوسف کو یاد کرتا رہے گا، یہاں تک کہ گھل کر مرنے کے قریب ہوجائے، یا ہلاک ہونے والوں سے ہوجائے۔اس نے کہا میں تو اپنی ظاہر ہوجانے والی بے قراری اور اپنے غم کی شکایت صرف اللہ کی جناب میں کرتا ہوں ۔‘‘ یہ اللہ کے نبی حضرت یعقوب علیہ السلام ہیں ؛ وہ اپنے بیٹے پر اس قدر غمگین ہیں ۔لیکن یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کی وجہ سے آپ پر طعن و تشنیع کی جائے۔تو پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر قتل کے خوف سے غمگین ہوں ؛تو آپ کو کیسے گالی و طعن تشنیع کی جاسکتی ہے؛ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دنیا و آخرت کی سعادت معلق ہے۔ پھر شیعہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے والد محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر انتہائی غم و ہمّ کا اظہار کیا تھا اورایک غم خانہ بنایا؛ شب و روزاس ’’ بیت الاحزان‘‘(غم خانہ) میں گزارا کرتی تھیں ۔لیکن اس چیز کو قابل مذمت نہیں سمجھتے۔حالانکہ یہ غم ایک ایسی چیز پر ہے جو گزر چکی ہے؛ اور پھر کبھی واپس آنے والی نہیں ۔ جب کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اس بات پرخوف زدہ اور غمگین تھے کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل نہ کردیا جائے۔یہ ایسا غم و حزن ہے جو آپ کی حفاظت و چوکیداری کو متضمن ہے۔اسی لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو آپ اس طرح سے غمگین نہیں ہوئے ؛جیسے پہلے ہوئے تھے؛ اس لیے کہ اب غمگین ہونے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ پس یہ ثابت ہوا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا غم و ملال حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے غم و ملال سے زیادہ اکمل تھا۔ اگر آپ کاغم زدہ ہونا مذموم فعل تھا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی تو غمگین ہوئی
[1] سیرۃ النبی لابن کثیر(۱؍۴۵۲) مستدرک حاکم(۳؍۶) دلائل النبوۃ(۲؍۴۷۶) [2] سیرۃ النبی لابن کثیر(۱؍۴۵۲)، مستدرک حاکم(۳؍۶) دلائل النبوۃ(۲؍۴۷۶)[فضائل الصحابۃ ۱؍۶۲]۔ [3] البخاری، کتاب الایمان، باب حب الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الایمان (ح:۱۴)، صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب وجوب محبۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (ح:۴۴)۔