کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 549
دوسری وجہ:....شیعہ اثنا عشریہ جو اس مہدی کو اپنا امام کہتے ہیں ان کے نزدیک امام منتظر کا نام محمد بن حسن ہے۔احادیث مبارکہ میں جس مہدی کی صفات وارد ہوئی ہیں ؛ ان کی روسے اس کا نام محمد بن عبداللہ ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ ایک گروہ نے تو حدیث مبارک سے والد کے نام کا تذکرہ تک مٹادیا تاکہ روایت ان کے جھوٹ سے متناقض نہ رہے ۔ اور ایک گروہ نے اس میں تحریف کی ۔اوروہ کہنے لگے : اس کا دادا حسین ہوگا‘اور اس کی کنیت ابو عبداللہ ہوگی۔تو اس صورت میں معنی ہوگا: ’’ محمد بن ابو عبداللہ ‘‘ اس طرح سے کنیت کو اسم ِعلم بنادیا۔
گمراہی کی اس ڈگر پر چلنے والا ابن طلحہ بھی ہے جس نے اپنی کتاب ’’ غایۃ السول فے مناقب الرسول ‘‘ میں یہی مسلک اختیار کیا ہے۔ جس انسان کو ان احادیث کی ادنیٰ سی بھی معرفت ہوگی تووہ جان لے گا کہ یہ تحریف ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کھلا ہوا جھوٹ ہے۔کیا ایسا بھی ہے کوئی انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان : ’’جس کا نام میرے نام پر اوراس کے والد کانام میرے والد کے نام پر ہوگا ‘‘ سے آپ کے والد کا نام عبداللہ کے سوا کچھ اور سمجھتا ہو؟ کیا کوئی انسان اس سے یہ بھی سمجھتا ہے کہ آپ کے دادا کی کنیت ابو عبداللہ ہوگی؟ [ہرگزنہیں ]۔
٭ پھر اس میں کونسی امتیازیت پائی جاتی ہے۔حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد میں کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جن کے بیٹوں کے نام محمد ہیں ۔ان میں سے ہر ایک کے دادا کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ : محمدبن ابو عبداللہ؛ جس طرح اس مہدی کے دادا کے بارے میں دعوی کرتے ہیں ۔اور پھر جو کوئی لوگوں میں اس بات کو بیان کرنا چاہتا ہو تووہ کیسے محمد بن حسن کو محمد بن عبداللہ بنائے گا اور کہے گاکہ : اس سے مراد آپ کے دادا ابو عبد اللہ ہیں ۔
یہ وصف ایسے بھی بیان ہوسکتا ہے : محمد بن الحسن ‘ یا ابن ابی الحسن ؛ اس لیے کہ آپ کے جد اعلی حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں اور آپ کی کنیت ابو الحسن ہے۔ یہ پہلے الفاظ سے زیادہ بہتر ہے اور ہدایت بیان چاہنے والوں کے لیے زیادہ واضح ہے۔
اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ امام مہدی حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ہو گا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے نہیں ۔ جیسا کہ اس سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت کے الفاظ گزر چکے ہیں ۔[1]
تیسری وجہ:....بہت سارے طوائف میں سے ہر ایک نے یہ دعوی کیا ہے کہ وہی وہ مہدی ہے احادیث مبارکہ میں جس کی بشارت دی گئی ہے۔مثلاً : قرامطہ باطنیہ کا دعویٰ ہے کہ ان کا امام ہی مہدویت کا بانی تھا۔ان لوگوں کی دعو ت مغرب میں پھیلی۔
٭ [حالانکہ اس کا دعویٰ مبنی بر کذب و دروغ ہے]۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ میمون القداح کی اولاد میں سے تھا۔ پھر باطنیہ نے یہ دعویٰ کیا کہ میمون محمد بن اسماعیل بن جعفر کا بیٹا ہے، جس کی طرف اسماعیلیہ منسوب ہیں ۔ حقیقت میں یہ لوگ باطن میں ملحد اور تمام ملتوں سے خارج ہیں ۔اور غالیہ اور نصیریہ سے بڑے کافر ہیں ۔ان کا مذہب مجوسیت فلسفہ اور صابی مذہب کا معجون مرکب ہے۔لیکن یہ لوگ اپنے آپ کو شیعہ ظاہر کرتے ہیں ۔اور ان کا اصل دادا یہودی تھا جو کہ
[1] محمد باقر الصدر نے امام مہدی کی مدت قیام کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے : اس کے بارے میں اخبار بہت زیادہ ہیں ۔ لیکن ساری مضمون کے لحاظ سے بہت بڑی حد تک آپس میں ٹکراتی ہیں ۔ یہاں تک کہ بہت سارے مؤلفین حیرانگی اور پریشانی کا شکار ہوگئے ہیں ۔‘‘
[الغیبۃ للطوسي ص ۴۷۴۔ الغیبۃ للنعماني ص ۳۵۳۔ أعلام الوری للطبرسي ۲؍۲۹۱۔ الإرشاد للمفید۲؍۳۸۱۔ بحار الأنوار ۵۲؍ ۲۸۰؛ ۲۸۷؛ ۲۹۱؛ ۲۹۸؛ ۲۹۹۔ تاریخ ما بعد الظہور ص۴۳۳]۔
[2] بعض روایات میں آیا ہے : ’’ ہمارے قائم کاملک انیس سال تک رہے گا۔ اورایک روایت میں ہے : سات سال تک رہے گا؛ ان سات سالوں میں سے ایک سال کے دنوں اور راتوں کو اللہ تعالیٰ اتنا لمبا کردے گا یہاں تک کہ ایک سال دس سالوں کے برابر ہوگا ۔ پھر اس لحاظ سے ان کی حکومت کی مدت تمہارے ان ستر سالوں کے برابرہوگی۔‘‘ایک اور روایت کے مطابق امام صاحب اس دنیا میں اصحاب کہف کی مدت یعنی ۳۰۹سال تک قیام کریں گے۔ایسے ہی امام صاحب کتنا عرصہ غار شریف میں روپوشگی فرمائے رہیں یہ ایک علیحدہ طویل اوراختلافات سے بھر پور داستان ہے۔ یہ اتنے تناقضات ہیں جو ختم ہونے میں نہیں آتے۔جو اس بات پردلالت کرتے ہیں کہ ان لوں کے پاس اس مسئلہ میں کوئی ایک مضبوط ‘ صحیح اور قابل اعتماد شرعی دلیل نہیں ۔ سب لوگوں کی گھڑی داستانیں اورقصے کہانیاں ہیں ۔ حتی خود شیعہ علماء اب اپنی ہی روایات کو جھٹلا رہے ہیں ۔ ﴿ وَ لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا﴾ (النساء۸۲)
’’اور اگر وہ اللہ کے سوا اور کہیں سے آیا ہوتا (جیسے کافر اور منافق سمجھتے تھے) تواس میں بہت سا اختلاف پاتے۔‘‘
سنن ابی داؤد، کتاب المھدی (ح:۴۲۸۳،۴۲۹۰) یہ حدیث الفاظ میں معمولی اختلاف کیساتھ شعیب بن خالد نے ابو اسحاق سے روایت کیاہے؛یہ حدیث منقطع ہے۔ ابو اسحق سبیعی کی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ثابت نہیں ہے۔
[3] ابن ماجۃ ۲؍۱۳۴۰ ۔ کتاب الفتن ‘ باب شدۃ الزمان۔السلسلۃ الضعیفۃ برقم۷۷؛ ج۱؍ص۱۰۳۔ أبو داؤد ۴؍۱۵۳]۔