کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 548
ابوداؤد نے یہ روایت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ میں ذکر کی ہے :’’ وہ سات سال تک زمین میں بادشاہی کرے گا۔‘‘[1] حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھ کر فرمایا: ’’بیشک میرا یہ بیٹا سردار ہے؛جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کانام رکھا ہے۔عنقریب اس کی نسل سے ایک شخص پیدا ہو گا، جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم نام ہو گا، وہ سیرت و کردار میں ان جیسا ہو گا۔ مگر شکل وصورت مختلف ہو گی۔ وہ زمین کو عدل سے معمور کردے گا۔‘‘[2] ان احادیث کے بارے میں کئی ایک گروہ غلط فہمی کاشکار ہوئے ہیں ۔بعض لوگوں نے تواحادیث مہدی کا بالکل ہی انکار کردیا۔اوروہ ابن ماجہ کی اس حدیث سے دلیل پیش کرتے ہیں : ’’ لَا مَہْدِیْ اِلَّا عِیْسٰی بن مریم۔‘‘ ’’عیسی بن مریم علیہ السلام کے علاوہ کوئی مہدی نہیں ۔‘‘[3] ایک تویہ روایت ضعیف ہے۔ محمد بن ولید بغدادی اور کچھ دوسرے ایسے لوگوں نے اس روایت پر اعتماد کیا جو خود قابل اعتماد نہیں ہیں ۔ نیز اس روایت کو ابن ماجہ نے یونس سے ؛ انہوں نے شافعی سے اوروہ اہل یمن کے ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں ۔اس آدمی کا نام محمد بن خالد جندی تھا۔اس کی روایات سے استدلال نہیں کیا جاسکتا۔اورنہ ہی یہ روایت مسند امام شافعی میں موجود ہے۔اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ : امام شافعی کا جندی سے سماع ثابت نہیں ۔اور یونس کا امام شافعی سے سماع ثابت نہیں ۔
[1] رات ہے ....[عاقل کے لیے اشارہ کافی ہے]۔یہاں پر ایک چھوٹا سا حوالہ دیا جارہا ہے کہ شیعہ کے نزدیک مہدی کے اس کے علاوہ دیگر کیا نام ہیں ۔ ان ناموں کی حقیقت میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رافضی مہدی کون ہوگا؟ اور اس کے پس پردہ محرکات کاجائزہ ہم نے ایک دوسری کتاب ’’طلوع آفتاب مہدی‘‘ میں لیا ہے ۔ مگر اس کے ساتھ ہی انہوں نے مہدی کے لیے مختلف نام بھی رکھے ہیں ۔امام غائب کے ناموں میں سے ۷۴ نمبر کا نام جیسا کہ نوری طبرسی نے شمار کیا ہے : خسرو مجوس....[ مجوسیوں کا صاحب زمان کے ساتھ کیا تعلق ہے ؟] آپ کے ناموں میں سے مزید نام : ....أقیذمو....ایزد شناس....پرویز ....بندہ یزدان....خجسۃ ....فیروز....خدا شناس ....سروش أیزد ... .زند أفریس ....شماطیل....فرخندہ ....کوکما اور ان کے علاوہ دوسرے نام بھی ہیں جن کا تذکرہ نوری الطبرسی نے اپنی کتاب النجم الثاقب میں کیا ہے ۔النجم الثاقب في أحوال الحجۃ الغائب ص ۲۶۶۔ ان اسماء کے پڑھنے والے قاری صاحب کو اس بات پر تعجب ضرور ہوگا اوروہ سوال کرے گا کہ کیا مہدی عربی نہیں ہوگا ‘ اور اس کا تعلق ہاشمی نسل سے نہیں ہوگا۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہ نام کیسے ہیں ؟ گویا کہ اس میں باقی مذاہب و ادیان کو ملا کر ایک جسم بنادیا گیا ہے۔ اور یہ اس سوچ کے تحت کہ مذکورہ مہدی پوری انسانیت کا نجات دھندہ ہوگا۔  امام شوکانی رحمہ اللہ نے فرمایاہے : ’’ مہدی کے بارے میں وارد احادیث جن کے بارے ہم مطلع ہوسکے ہیں ان کی تعداد پچاس احادیث ہیں ۔ ان میں صحیح بھی ہیں ‘ حسن بھی اورایسی ضعیف بھی جنہیں قبول کیا جاسکے۔ یہ احادیث بغیر شک و شبہ کے متواتر ہیں ۔ بلکہ اس سے کم پر بھی تواتر کی اصطلاح صادق آتی ہے جیسا کہ اہل علم کے ہاں اصطلاحات اوراصول کی کتابوں میں تحریر شدہ ہے۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مہدی کے بارے میں وارد آثاربہت زیادہ ہیں ۔ جن کا حکم مرفوع حدیث کا ہے؛ اس لیے کہ اس مسئلہ میں اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔[التوضیح فيتواتر ما جاء في المنتظر والدجال و المسیح ‘ نقلاً عن الإذاعۃ لصدیق حسن خان ص ۱۱۳۔۱۱۴۔]مسیح ومہدی کے مسئلہ پر علامہ انور شاہ کشمیری نے اپنی کتاب ’’ التصریح فی تواتر نزول مسیحً‘‘ میں بھی عمدہ کلام کیا ہے ۔ [2] سنن ابی داؤد، کتاب المھدی(ح:۴۲۸۲)۔ سنن ترمذی کتاب الفتن، باب ما جاء فی المھدی (ح:۲۲۳۰)۔ [3] یہ حدیث ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔سنن ابی داؤد، کتاب المھدی؛ الباب الأول ( ح: ۴۲۸۴)، سنن ابن ماجۃ مختصراً، کتاب الفتن،باب خروج المھدی(ح:۴۰۸۶)؛ اس روایت کے الفاظ ہیں : ’’المہدي من ولد فاطمۃ۔‘‘ مہدی فاطمہ کی اولاد میں سے ہوگا۔ صححہ الألبانی في السلسلۃ الضعیفۃ ۱؍۱۰۸۔ رضی اللّٰہ عنہم عن أبی سعید الخدري رضی اللّٰہ عنہ ؛ سنن أبی داؤد، کتاب المھدی؛ الباب الأول (ح: ۴۲۸۵)۔وحسنہ الألباني في صحیح الجامع الصغیر۶؍۲۲۔