کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 491
کرنے کا مقصدیہ ہے کہ یہ واقعہ افلاک میں سب سے بڑی نشانی اورخارق عادت ہوتا؛ اوربہت سارے لوگ اس کے امکان کا انکار کرتے ؛ اوراگر ایسا پیش آیا ہوتا تو اس کو نقل کرنے والے اس تعداد سے زیادہ ہوتے جو تعدا د اس سے کم درجہ کے واقعات کونقل کرتی ہے۔اور پھر اس واقعہ کو قبول بھی کیسے کیا جاسکتا ہے جب کہ اس کی کوئی مشہور سند ہی نہیں ۔اس سے یہ علم یقینی طور پر حاصل ہوجاتا ہے کہ یہ سارا من گھڑت واقعہ ہے جو کہ پیش نہیں آیا۔ ہاں اگر ایسا ہوا تھا کہ سورج بادلوں میں چھپ گیا تھا‘ اور پھر بادل چھٹ جانے کے بعد نظر آنے لگا تو یہ عام سی بات ہے ؛ شاید لوگوں نے اسے غروب آفتاب گمان کرلیا ہو‘اور پھربادل چھٹ گئے ہوں ۔اور اگر ایسا واقعہ بھی پیش آیا تو تھا تو اس میں صرف اتنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے عیاں کردیا کہ ابھی وقت باقی ہے اور نماز پڑھی جاسکتی ہے ۔ ایسے واقعات تو بہت سارے لوگوں کے لیے پیش آتے ہیں ۔ رجوع آفتاب کی حدیث کی سند پر بحث: اس حدیث کے بارے میں مصنفین نے کتابیں لکھی ہیں جن میں اس کی اسناد کو جمع کیا گیا ہے۔ان میں سے ایک تصنیف ابو القاسم عبداللہ بن عبداللہ ابن احمد الحکانی کی ہے۔ اس کا نام ہے ’’ مسألۃ تصحیح رد الشمس و ترغیب النواصب الشمس۔‘‘انہوں نے کہا ہے: یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے باسناد اسماء بنت عمیس الخعثمیہ ‘حضرت علی بن ابی طالب ‘ اورحضرت ابوہریرہ اورحضرت ابوسعید رضی اللہ عنہم روایت کی گئی ہے۔ اسماء کی روایت محمد بن ابی فدیک نے نقل کی ہے۔اس نے کہاہے: ((أخبرني محمد بن موسیٰ -ھو القطري عن عون بن محمد عن أمہ -أم جعفر - عن جدتہا أسماء بنت عمیس أن النبي رضی اللّٰہ عنہم صلی الظہر ثم أرسل علیاًّ في حاجۃ ۔رجع وقد صلی النبي رضی اللّٰہ عنہم یعنی العصر۔فوضع رأسہ في حِجر علي ولم یحرکہ حتّی غابت الشمس....)) اسماء بنت عُمَیس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ: ’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھی تو پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کسی کام سے بھیجا۔جب آپ واپس آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھ لی تھی۔سو آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں اپنا سر رکھا[اور سوگئے؛اور ] کوئی حرکت نہیں کی یہاں تک کہ آفتاب غروب ہو گیا۔تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اﷲ ! تیرا بندہ علی تیرے نبی کی وجہ سے رکا رہا اور نماز ادا نہ کر سکا، براہِ کرم آفتاب کو لوٹا دے، تاکہ وہ نماز ادا کر سکے۔ اسماء کا بیان ہے کہ آفتاب دوبارہ نمودار ہو گیا، یہاں تک کہ وہ زمین اور پہاڑوں پر نظر آنے لگا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے وضوء کرکے عصر کی نمازپڑھی۔‘‘ اس کتاب کے مصنف ابو القاسم نے کہا ہے کہ:
[1] صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ الخندق(حدیث:۴۱۱۱،۴۱۱۲)، صحیح مسلم ، کتاب المساجد، باب الدلیل لمن قال الصلاۃ الوسطی ....‘‘ (حدیث: ۶۲۷۔۶۳۱)۔ [2] مشرکین کے معجزہ طلب کرنے پر چاند دوٹکڑے ہونے کا واقعہ پیش آیا تھا۔ جسے بڑی تعداد میں صحابہ نے روایت کیا ہے۔ البخاری ‘ کتاب المناقب ‘باب سؤال المشرکین أن یریہم النبی صلي اللّٰه عليه وسلم آیۃ۔وفی ہذا الباب عبداللّٰہ بن مسعود ‘ وانس بن مالک وابن عباس وغیرہم ۔ بخاری کتاب مناقب الانصار ‘ باب انشقاق القمر۔ کتاب التفسیر‘ سورۃ اقترب الساعۃ۔ مسلم کتاب صفات المنافقین و أحکا مہم؛ باب انشقاق القمر۔سنن الترمذی کتاب التفسیر ‘ باب سورۃ القمر۔