کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 489
اگر سوال کیا جائے کہ یہ امت تو بنی اسرائیل سے افضل ہے۔اگر سورج کویوشع علیہ السلام کے لیے واپس کردیا گیا تھا تو پھر اس امت کے فضلاء کے لیے واپس کیے جانے میں کونسا حرج ہے؟ تو ہم جواباً کہیں گے کہ: آفتاب لوٹایا نہیں گیا تھا، بلکہ دن کو لمبا کردیا گیا تھا؛ اور اس طرح آفتاب دیر سے غروب ہوا۔ بعض دفعہ لوگوں کے لیے یہ چیز ظاہر نہیں ہوتی۔اس لیے کہ دن کی چھوٹائی، بڑائی کا احساس نہیں ہوتا۔ یوشع علیہ السلام کے لیے دن ٹھہر جانے کا علم ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نص کے ذریعہ حاصل ہواہے۔[ اگر نص سے آفتاب کا لوٹ آنا ثابت ہوجائے تو ہمیں اس کے تسلیم کرنے میں کوئی عذر نہیں ]۔ مزید برآں کہ دن کے لمبا کیے جانے میں کوئی مانع بھی نہیں ہے۔اگر اللہ تعالیٰ ایسا کرنا چاہے۔ یہ امر قابل غور ہے کہ حضرت یوشع علیہ السلام کو رجوع آفتاب کی ضرورت تھی، اس لیے کہ غروب آفتاب کے بعد ہفتہ کا آغاز ہو رہا تھا، جس میں لڑائی حرام تھی۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر ہفتہ کی رات او رہفتہ کا دن کام کرنا حرام کردیا تھا۔[اس لیے اس بات کی ضرورت تھی کہ سورج لوٹ آئے تو حضرت یوشع اپنے مشن کی تکمیل کر سکیں ]۔ بخلاف ازیں امت محمدیہ میں اس چیزکی کوئی ضرورت نہیں تھی،اور نہ ہی ایسا کرنے میں کوئی فائدہ ہے۔ اس لیے کہ سہل انگاری کی بنا پر جس کی نماز عصر فوت ہو جائے تو اس کا یہ گناہ توبہ سے معاف ہو جائے گا۔اور توبہ کے لیے سورج کے واپس کیے جانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی ۔ اور اگر اس میں وہ بے قصور ہے مثلاً سویا رہا یا بھول گیا تو وہ بڑی آسانی سے بعد از غروب فوت شدہ عصر ادا کر سکتا ہے۔ پھر یہ امر بھی قابل غور ہے کہ غروب آفتاب کے ساتھ عصر کا وقت جاتا رہتا ہے بالفرض اگر سورج لوٹ آئے اور کوئی شخص رجوع آفتاب کے بعد نماز عصر ادا کرے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوگا کہ اس نے عصر کی نماز اصلی وقت پر ادا کی۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشمس وَ قَبْلَ غُرُوْبِہَا﴾ ’’اور اپنے پروردگار کی تسبیح اور تعریف بیان کرتا رہ، سورج نکلنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے، رات کے مختلف وقتوں میں بھی اور دن کے حصوں میں بھی تسبیح کرتا رہ ۔‘‘[طہ ۱۳۰]۔ اس میں مغرب کا مشہور وقت مراد ہے۔انسان پر لازم ہے کہ اس غروب آفتاب سے پہلے مغرب کی نماز پڑھ لے ۔ جب سورج طلوع ہو او رپھر غروب ہو۔ اسی طرح غروب آفتاب کے ساتھ روزہ کا افطار کرنا اور نماز مغرب ادا کرنا درست ہوتا ہے۔ اب بار ثانی آفتاب کے طلوع پذیر ہونے سے افطار کرنے والے کا روزہ فاسد نہیں ہوگا [ اور اس کی نماز باطل نہیں ہو جائے گی] یہ ایک فرضی بات ہے جو کبھی وقوع پذیر نہیں ہوئی اور نہ ہی کبھی ہوگی۔پھر اس کو مقدر ماننا ایسی چیز کو مقدر ماننا ہے جس کا کوئی وجود ہی نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ فروعات میں کلام کرنے والے علماء کے ہاں اس جیسی مثالوں کے بارے میں کوئی حکم نہیں ملتا۔ نیز غزوۂ خندق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز عصر فوت ہو گئی تھی۔ آپ نے کثیر صحابہ کی معیت میں بصورت قضاء ادا کی تھی۔ اور رجوع آفتاب کی دعا نہ فرمائی،[ حالانکہ آپ کو اس سے بڑا دکھ ہوا، اور آپ نے اس سے روکنے والے کفار
[1] المنتقی میں علامہ ذہبی فرماتے ہیں :میں کہتا ہوں :’’ یہ صحیح نہیں کہ داؤد نے یہ روایت بیان کی ہے۔یزید نوفلی نے یہ روایت داؤد سے نقل کی ہے اور یزید ضعیف راوی ہے۔ یزید سے اس کا بیٹا یحییٰ روایت کرتا ہے وہ بھی ضعیف ہے۔سیدناعلی کے لیے رجوع آفتاب کے بارے میں دیکھیے مختصر تحفہ اثنا عشریہ، ص: ۱۸۵۔ ۱۸۷، حوالہ مذکور میں محدث ابن حزم کا کلام قابل ملاحظہ ہے۔ [2] ٭....حمیری : اسماعیل بن محمدبن یزید بن ربیعہ حمیری رافضی شاعر تھا ‘ ۱۰۵ ہجری میں پیدا ہوا اور۱۷۹ ہجری میں وفات پائی ۔ ابن حجر کہتے ہیں : انتہائی خبیث رافضی تھا۔دارقطنی کہتے ہیں : اپنے شعروں میں صحابہ کرام پر طعن کرتا اور حضرت علی کی مدح کیا کرتا تھا۔ شہرستانی نے اسے مختاریہ کیسانیہ میں سے شمار کیا ہے۔ یہ مختار بن ابو عبید ثقفی کے وہ ساتھی ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد محمد بن حنفیہ کی امامت کے قائل ہیں ۔اس کے حالات زندگی جاننے کے لیے دیکھیں : لسان المیزان ۱؍۴۳۶۔ البدایۃوالنہایۃ ۱۰؍۱۷۳۔ الملل والنحل ۱؍۱۳۳۔ [3] مسند احمد(۲؍۳۱۸،۳۲۵)، صحیح بخاری ، کتاب فرض الخمس باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ’’ احلت لکم الغنائم‘‘ (حدیث :۳۱۲۴) ، صحیح مسلم، کتاب الجہاد ، باب تحلیل الغنائم لہذہ الامۃ خاصۃ،(حدیث:۱۷۴۷)۔