کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 450
ماں اور باپ کو جمع کیا ۔‘‘حضرت سعد مستجاب الدعاء اور پختہ تیر انداز تھے۔ ان[ثابت قدم رہنے والوں ] میں حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بھی تھے جو انتہائی سخت جنگجو اور تیر انداز تھے۔اورطلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ تھے؛ جواپنے ہاتھ پر وار روک کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت فرمارہے تھے۔اورآپ کا یہ ہاتھ شل ہوگیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو درعیں پہن رکھی تھیں ؛نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد بہت سے صحابہ نے شہادت پائی۔ ابن اسحق رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’ سیرت ‘‘ میں ان لوگوں کے بارے میں لکھا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوگئے تھے ؛ ان میں ابو دجانہ تھے ‘ جنہوں نے اپنی جان پر کھیل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی؛آپ کی پیٹھ دشمن پر کی طرف سے تیر لگتے ؛ مگر آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھک کر آپ کو بچارہے تھے۔ آپ کو تیروں کے کئی زخم آئے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص آپ کے سامنے کھڑے تیر چلارہے تھے ؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود تیر اٹھا کر انہیں دیتے ؛ اور فرماتے جاتے : ’’ میرے ماں باپ تجھ پہ قربان ! خوب تیر چلاؤ ۔‘‘ یہاں تک کہ آپ انہیں ایسا تیر بھی تھما دیتے جس کا پھل نہ ہوتا۔اورفرماتے :’’ یہ تیر بھی چلاؤ ۔‘‘ جب دشمنوں نے آپ پرہلہ بول دیاتو آپ نے فرمایا: ’’ کون ہے جو ہمارے لیے اپنی جان قربان کرے گا؟‘‘ یہ سن کر حضرت زیاد بن سکن انصاری رضی اللہ عنہم پانچ انصاری صحابہ کے ایک گروہ کے ساتھ کھڑے ہوئے؛ بعض نے ان کا نام عمارہ بن زید بن سکن بتایاہے؛ یہ ایک ایک کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آکر لڑتے ؛اور شہید ہوتے جاتے ۔یہاں تک کہ سب سے آخر میں زیادیا عمارہ رضی اللہ عنہ آئے ؛ اور انہیں زخموں نے بہت بری طرح چور کردیا تھا؛مگر آپ ثابت قدم رہے یہاں تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت لوٹ کر آگئی؛ اور آپ کی حفاظت میں لڑنے لگی ۔اس موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمارہ رضی اللہ عنہ کو اپنے قریب کرنے کا حکم دیا۔آپ نے ان کے سر کو اپنے قدم مبارک پر رکھ کر سہارا دیا۔اوران کا انتقال اس حال میں ہوا کہ ان کے گال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں پر تھے۔‘‘[1] [آپ فرماتے ہیں ]: ہم سے عاصم بن عمر بن قتادہ نے حدیث بیان کی ؛ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کمان سے احد کے دن تیر چلائے ‘یہاں تک کہ وہ کمان ٹوٹ گئی ۔پھر وہ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے لے لی؛ جو کہ پھر آپ ہی کے پاس رہی۔ اس دن حضرت قتادۃ بن نعمان کی آنکھ نکل گئی تھی۔یہاں تک کہ وہ آپ کے گالوں پر لٹک رہی تھی۔عاصم بن عمر فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے وہ آنکھ واپس اپنی جگہ پر رکھ دی؛ تووہ دوسری آنکھ سے بھی خوبصورت لگتی تھی۔‘‘ حضرت علی اورابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم میں سے کوئی ایک بھی اس وقت دوسرے لوگوں کے ساتھ جنگ وقتال میں مصروف تھے ‘ ان میں سے کوئی ایک بھی اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع کے لیے موجود نہیں تھا جب آپ کی پیشانی پر زخم آئے۔
[1] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک زخمی ہو گیا اور اگلے دانت ٹوٹ گئے۔ خُود آپ کے سر میں دھنس گیا اور اس کی کڑیاں آپ کے سر مبارک میں پھنس گئیں ۔ اسی حالت میں آپ فرمانے لگے :’’ وہ قوم کیسے نجات پائے گی جس نے اپنے نبی کے ساتھ یہ سلوک کیا۔‘‘ تب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: ﴿لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْئٌ﴾(آل عمران:۱۲۸)’’ اس امر میں آپ کا کوئی اختیار نہیں ہے۔‘‘البخاری۔کتاب المغازی باب﴿ لَیْس لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْئٌ....﴾ تعلیقاً قبل ح(۴۰۶۹)، صحیح مسلم، کتاب الجہاد‘باب غزوۃ احد،(ح:۱۷۹۱)۔ [2] سیرۃ ابن ہشام (ص:۳۸۸) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد بہت سے صحابہ نے شہادت پائی۔ رئیس المشرکین نے کہا:’’ ہُبَل کی جَے! آج کا دن بدر کے دن کا جواب ہے۔‘‘ [البخاری۔ کتاب المغازی ۔ باب غزوۃ احد، (ح:۴۰۴۳)] یہ غلط ہے کہ علی غزوۂ احد میں زخمی ہوئے تھے۔ اور جبریل نے آپ کو اٹھایا تھا۔ ہم رافضی مصنف سے پوچھتے ہیں کہ اس کی اسناد کہاں ہے اور اس کا ماخذ موضوعات کی کون سی کتاب ہے؟