کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 440
پیش آنے میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔اورجب مریض کو خبر دی جائے کہ اس دواء میں شفاء ہے تو یہ بشارت دواء کی ترشی یا کڑواہٹ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس مامور بہ دعاء کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ۔یہی چیز تمام معاملات کی اصل اوردین کی چکی کا ایک پاٹ ہے۔آپ پر واجب ہوتا تھا کہ جو واجب دوسرے لوگ ادا کررہے ہوں وہ زیادہ اچھے طریقہ سے آپ ادا کریں ۔دعا کرنا اورمدد طلب کرنا نصرت الٰہی نازل ہونے کے بڑے اسباب میں سے ایک ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کم ہے ۔ آپ کی عظیم خصوصیت یہ ہے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست و بازو تھے۔ اور آپ کی مدافعت کرنے میں پیش پیش رہتے تھے ۔ اور آپ نے یہ بھی عیاں کردیا تھا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی نصرت پر کامل یقین ہے ؛ اور آپ دشمن کی طرف دیکھتے تھے کہ کیا وہ مسلمانوں سے کس طرح جنگ کررہے ہیں اور مسلمانوں کی صفوں پر نظر ڈالتے تھے کہیں کوئی خلل واقع نہ ہوجائے۔ اور اس حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس بات کا حکم دیا کرتے تھے وہ جاکر مسلمانوں تک پہنچایا کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود آپ کے بارے میں فرمایاہے :
﴿اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ﴾
’’اگر تم ان(نبی صلی اللہ علیہ وسلم )کی مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی اس وقت جبکہ انہیں کافروں نے (دیس سے) نکال دیا تھا، دو میں سے دوسرا جبکہ وہ دونوں غار میں تھے ۔‘‘ [التوبۃ۴۰]
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ جب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد نہیں کی تھی تب بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کی اور آپ کے ساتھی کی اس وقت مدد کی جب وہ دونوں غار میں تھے۔ اس حالت میں تو خوف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تھا کسی اور کے متعلق نہیں ۔اس قصہ کے متعلق تفصیلی گفتگو اس کتاب کے آخر میں آئے گی۔وزیر کا بادشاہ کے ساتھ اپنا حال ہوتا ہے اور بادشاہ کا وزیر کے ساتھ اپنا حال ہوتا ہے ۔
وفاتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدحضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے کارنامے:
یہاں پر مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام لوگوں میں سب سے بہادر تھے۔ ان سے زیادہ بہادر کوئی دوسرا نہیں تھا۔ جب سالار رسُل صلی اللہ علیہ وسلم نے رحلت فرمائی تو مسلمانوں پر مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ ہر شخص اپنی جگہ بے چین تھا اور ہوش و حواس کھو بیٹھا تھا ؛عقلیں کام نہیں کررہی تھیں ۔ہر طرف اضطراب ہی اضطراب تھا۔ کوئی آپ کی موت کا انکار کررہا تھا۔اور کوئی اپنی جگہ پر بیٹھ کر رہ گیا تھا۔اور کوئی اوسان باختہ ہوچکا تھا اسے کسی گزرنے والے یا سلام کرنے والے کا کوئی پتہ نہیں چل رہا تھا۔کوئی رورہا تھا اوراس کی ہچکی بندھ گئی تھی ۔ گویاکہ قیامت تھی۔ قیامت صغریٰ بپا ہو گئی۔ اکثر بدو عرب دین اسلام سے منحرف ہو گئے۔اس مشکل ترین وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ صدیق صبر ویقین کی دولت سے بہرہ ور ہو کر کامل استقلال اورثابت قلبی وبہادری کے ساتھ کھڑے ہو گئے؛ نہ آپ نے گریہ کیا؛نہ ہی گھبرائے؛ آپ نے اور صحابہ کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے ہیں ؛ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے اپنے پاس
[1] مسلم ۳؍۱۴۰۳’کتاب الجہاد والسیر‘ باب : غزوۃ البدر۔ اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام سے مشورہ کیا ۔ ....اے حدیث کے آخر میں ہے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ’’ یہ فلاں کی قتل گاہ ہے‘‘ اور اپنا دست مبارک اس جگہ زمین پر رکھ دیتے۔ان میں سے کوئی انسان بھی اپنی اس بتائی گئی جگہ کے علاوہ نہیں مرا۔
اس سے ملتی جلتی ایک روایت سیرت نگاروں نے حضرت جہیم بن صلت سے نقل کی ہے: آپ فرماتے ہیں : میں نیند او ربیداری کی درمیانی حالت میں تھا کہ میں نے دیکھا: ایک گھوڑے سوار آکر رکا اور اس کے ساتھ اس کا اونٹ بھی تھا۔ پھر اس نے کہا: عتبہ بن ربیعہ ‘ شیبہ بن ربیعہ ‘ ابو الحکم بن ہشام ‘ اور امیہ ابن خلف اور فلاں فلاں لوگ قتل ہوگئے ....‘‘ تفصیل کے لیے دیکھیں : سیرت نبی از ابن کثیر۲؍۳۹۸۔ زاد المعاد ۳؍۱۷۳۔ سیرت ابن ہشام ۲؍۲۶۷۔