کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 439
پر فائز ہیں ۔پس اس سے معلوم ہوا کہ صرف اسباب پر تکیہ کرنا توحید کے منافی ہے اور اسباب کو سرے سے ترک کردینا عقل و خردمیں قدح کا باعث ہے؛اور اعراض و اسباب سے بالکلیہ اعراض کرلینا بھی خلاف شرع ہے ۔ معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ فرض عاید ہوتا ہے کہ جہاد کے ذریعہ اقامت دین کی پوری پوری کوشش کریں اور اس راہ میں اپنی جان و مال اور بارگاہ ایزدی میں دعا کرنے اور اس پر مسلمانوں کو آمادہ کرنے سے گریز نہ کریں ۔ بارگاہ ایزدی میں دست بدعا ہونا ایک عظیم جہاد ہے؛ اور مرغوب کے حصول اور مکروہ سے نجات کے بڑے اسباب میں سے ایک ہے؛اور پیغمبر اس کا مامور ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کمزور اور مفلس مہاجرین سے فتح کی دعاء کروایا کرتے تھے۔ اور جب بدر کے موقعہ پر قریش آئے ؛ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ[مقام بدرپر] موجود تھے ؛ اور آپ نے اپنے صحابہ کو کفار کے مقتل کی خبر بھی دیدی تھی ؛ آپ نے فرمایا تھا: ’’ یہاں پر عتبہ بن ربیعہ قتل ہوگا؛ یہاں پر شیبہ بن ربیعہ قتل ہوگا؛ یہاں پر امیہ بن خلف قتل ہوگا؛ یہاں پر ابو جہل بن ہشام قتل ہوگا۔ یہاں پر فلاں انسان قتل ہوگا۔‘‘[1] پھر اس کے باوجودکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم تھا کہ ایسا ضرور ہوکر رہے گا۔ اور آپ جانتے تھے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کا ارادہ فرمالیتے ہیں تو پھر اس کے ہونے میں اسباب کا ہونا یا نہ ہونا رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ یہ کہ بعض اسباب ایسے ہیں جن کے اختیار کرنے کا حکم بندوں کو دیا گیا ہے۔ وہ سب سے بڑا سبب جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دیاہے ‘ وہ اس سے مدد طلب کرنا ہے ۔تو آپ نے وہ فریضہ ادا کیا جس کا آپ کو حکم دیا گیا تھا۔ حالانکہ آپ جانتے تھے کہ جس چیز کا آپ سے وعدہ کیا گیا ہے وہ ضرور ہوکر رہے گی۔جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی عبادت اوراطاعت گزاری کرتے تھے ؛ حالانکہ آپ جانتے تھے کہ دنیاء وآخرت کی سعادت آپ قدموں میں ہے۔ جب دل پر خوف و ہیبت چھا جائے اور عجز و انکسار کا غلبہ ہو تو بعض چیزیں جو ذہن میں محفوظ ہوتی ہیں یاد نہیں رہتیں ۔ یہ چیز کسی کے عالم ہونے میں مانع نہیں ہوسکتی۔اور نہ ہی اس کے اجتہاد و جہاد میں اسباب کے اختیار کرنے میں کوئی رکاوٹ ہوسکتی ہے۔اور جس انسان کو علم ہو کہ جب وہ مریگا تو جنت میں داخل ہوگا۔لیکن یہ علم موت کی بعض سختیاں
[1] صحیح مسلم۔ کتاب الجہاد، باب الامداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر، (حدیث: ۱۷۶۳)۔ [ دعا کرنے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی قدح وارد نہیں ہوتی، بلکہ یہ آپ کے کمال کی دلیل ہے اسباب پر تکیہ کرنا توحید کے منافی ہے اور اسباب سے بالکلیہ اعراض کرلینا بھی خلاف شرع ہے۔ رسول پر یہ فرض عاید ہوتا ہے کہ جہاد کے ذریعہ اقامت دین کی پوری پوری کوشش کرے اور اس راہ میں اپنی جان و مال اور بارگاہ ایزدی میں دعا کرنے اور اس پر مسلمانوں کو آمادہ کرنے سے گریز نہ کرے۔ بارگاہ ایزدی میں دست بدعا ہونا ایک عظیم جہاد ہے اور پیغمبر اس کا مامور ہوتا ہے ۔ جب دل پر خوف و ہیبت چھا جائے اور عجز و انکسار کا غلبہ ہو تو بعض چیزیں جو ذہن میں محفوظ ہوتی ہیں یاد نہیں رہتیں ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی عظیم خصوصیت یہ ہے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست و بازو تھے۔ اور آپ کی مدافعت کرنے میں پیش پیش رہتے تھے۔[دراوی جی ]