کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 438
آپ آغاز اسلام ہی سے ان خطرات میں گھرے رہے جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبتلا تھے۔مگر کبھی بزدلی دکھائی نہ بے قراری کا اظہار کیااورنہ ہی پیچھے ہٹے۔ بلکہ خطرات و مہالک میں کود کراپنی جان پر کھیل کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتے۔مشرکین سے مال و جان اور زبان سے جہاد میں حصہ لیتے۔یہ تمام باتیں گزر چکی ہیں ۔ جنگ بدر میں سائبان کے نیچے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم راہ تھے؛ حالانکہ سب یہ بات جانتے تھے کہ مشرکین کا اصل ہدف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔مگر آپ بالکل ثابت قلب تھے‘نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد و نصرت کر رہے تھے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوکر اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنے لگے تو آپ فرما رہے تھے: ’’ اللہم أنجزلي ما وعدتني ؛ اللہم إن تہلک ہذہ العصابۃ ‘ لا تعبد؛ اللہم اللہم ۔‘‘ ’’اے اﷲ !جو وعدہ مجھ سے کیا ہے اس کو پورا کر۔اے اللہ! اگر یہ مختصر سی جماعت ہلاک ہو گئی تو دنیا میں تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا؛ اے اللہ ! اے اللہ!....‘‘ [1] ابو بکر رضی اللہ عنہ برابر کہتے جا رہے تھے : ’’ اے اﷲ کے رسول! آپ کی یہ دعا کافی ہے، اﷲتعالیٰ آپ سے کیے ہوئے وعدوں کو پورا کریں گے۔‘‘ اس سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے یقین کامل؛اللہ تعالیٰ کے وعدہ پر اعتماد اور عزم و ثبات؛شجاعت وبہادر پر روشنی پڑتی ہے؛ اور قدرتی بہادری پر ایمانی شجاعت وبہادری زیادہ تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت آپ سے زیادہ کامل تھی ‘اورآپ کا مقام ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مقام سے اعلی تھا۔یہاں پر مقصودیہ بیان کرنا ہے کہ [رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد] لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے ۔ان سے بڑھ کر کوئی دوسرابہادر نہیں تھا۔ معاملہ ایسے نہیں جیسا کہ بعض جاہل لوگ گمان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام سے اعلی ہیں-نعوذ باللہ من ذلک-۔اس موقعہ پر دعا کرنے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی قدح وارد نہیں ہوتی۔جیسا کہ بعض لوگوں نے اس بارے میں گفتگو کی ہے۔ اس میں ابن عقیل اور دوسرے لوگوں نے بھی بحث کی ہے۔[اس موقعہ پر دعاکرنا] یہ آپ کے کمال اور جامعیت کی دلیل ہے ۔آپ ہر مقام پر عظمت ورفعت کی انتہائی بلندیوں
[1] سیرۃ ابن ہشام(ص:۳۸۹)۔ [2] صحیح بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب قول اللّٰہ تعالیٰ ﴿ وَ یَوْمَ حُنَیْنٍ اِذْ اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ....﴾ (ح: ۴۳۱۵۔ ۴۳۱۷)۔ صحیح مسلم، کتاب الجہاد۔ باب غزوۃ حنین(حدیث:۱۷۷۶)۔