کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 437
و جدال کرتا ہے اور بہت سارے لوگوں کو قتل کرتا ہے ؛ لیکن یہ اس وقت جب کوئی اسے حفاظت فراہم کرنے والا ہو۔ اور اگر اسے خوف محسوس ہوجائے تو پھر اس پر بزدلی چھاجاتی ہے۔ اوراس کا دل ٹوٹ جاتا ہے۔اور آپ کسی ایسے انسان کو بھی دیکھ سکتے ہیں جو ثابت القلب ہو ‘مگر اس نے اپنے ہاتھ سے بہت سارے لوگوں کو قتل نہ کیا ہو۔ ایسا انسان خوف کے اوقات میں ثابت قدم رہنے والا اور انتہائی خطرناک موڑ پر پیش قدمی کرنے والاہوتا ہے۔ جنگی سالاروں اور قیادت میں اور ہر اول دستہ کے لوگوں میں اس خصلت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے کہ پیش قدمی کرنے والا جب بہادر اور ثابت ِ قلب ہو ؛ تو وہ آگے ہی بڑھتا رہتا ہے ؛ پیچھے نہیں ہٹتا۔ پس اس کے ساتھی بھی جنگ و قتال کرتے ہیں ۔ اوراگر بزدل اور کمزور ڈرپوک ہو تو وہ پسپا ہوجاتا ہے ‘آگے نہیں بڑھ سکتا ‘اورنہ ہی ثابت قدم رہ سکتا ہے۔بھلے اس کا بدن کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو۔ [شدید گرفت اور جنگی مہارت بھی شجاعت میں داخل ہے]۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت ہر لحاظ سے کامل تھی‘وہ شجاعت جو میدان جنگ میں سالار لشکر سے مطلوب ہوتی ہے۔اس انتہائی شجاعت کے باوجود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن خلف کے سوا کسی کو قتل نہیں کیا تھا۔[1] اسے غزوۃ احد میں قتل کیا تھا۔اس سے پہلے یا بعد آپ نے اپنے ہاتھ سے کسی کو قتل نہیں کیا۔حالانکہ آپ کی شجاعت کا یہ عالم تھا کہ آپ تمام صحابہ سے زیادہ بہادر تھے۔تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنگ حنین میں منتشر ہو گئے تھے۔ مگر آپ خچر پر سوار ہو کر بدستور دشمن کی طرف بڑھے جا رہے تھے۔آپ کی خچر نہ بھاگتی تھی اورنہ ہی پیچھے ہٹتی تھی۔اور اس کیساتھ ساتھ آپ
فرماتے جارہے تھے:
اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ ....اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ
’’ میں نبی ہوں اس میں کوئی جھوٹ نہیں ....میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں ۔[2]
پس آپ اپنا نام لے کر آگے بڑھ رہے تھے ‘ جب کہ صحابہ کرام بکھر چکے تھے۔اوردشمن مسلسل آپ کی طرف بڑھ رہاتھا۔اور آپ اپنی خچر پر سوار دشمن کی طرف بڑھ رہے تھے ؛ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے آپ کی خچر کی لگام تھامی ہوئی تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اوٹ لیا کرتے تھے ‘اس لیے کہ آپ ان سب سے زیادہ بہادر تھے ؛ اگرچہ لوگوں میں ایسے بھی تھے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ لوگوں کو قتل کیا تھا۔
جب امام میں قلبی شجاعت کی ضرورت ہوتی ہے تو اس میں شبہ نہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی زیاد دلیر وبہادر تھے۔اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عثمان و علی ‘طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہم سے بڑھ کر بہادر تھے۔ جو انسان بھی صحابہ کرام کے حالات وواقعات جانتا ہے ‘ اسے ان باتوں کا علم ہے۔
[1] صحیح بخاری، کتاب الجہاد۔ باب الحمائل و تعلیق السیف (حدیث:۲۹۰۸)، صحیح مسلم ۔ کتاب الفضائل باب شجاعتہ رضی اللّٰہ عنہم (حدیث:۲۳۰۷)۔
[2] مسند احمد(۱؍۸۶)۔صحیح۔