کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 436
بن گئی ۔سلامتی پوری ہوئی۔ اس غرض نے ان کو ایک ملت کی لڑی میں پرو دیاتھا ۔لیکن جب لوگوں نے صبح کی اور انہوں نے آپ کی یہ بہادری دیکھی تو انہیں اپنے آپ پر غصہ آیا ‘اورآپ کو پہچان لینے کے بعد وہ لوگ بکھر گئے۔وہ اس حالت میں پلٹے کہ ان کے تمام حیلے ناکام ہوچکے تھے اور ان کی تدبیریں الٹ چکی تھیں ۔ ‘‘ [شیعہ مصنف کا بیان ختم ہوا] [جواب]: اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بہادر ترین صحابہ میں سے تھے۔جن کی شجاعت سے اللہ تعالیٰ نے نصرت اسلام کی خدمت لی ہے۔آپ کا شمار مہاجرین و انصار کے بڑے بزرگ سابقین اولین میں سے ہوتا ہے۔آپ ان لوگوں کے سردار ہیں جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا؛ اور اپنی تلوار سے کئی کفار کوقتل کیا ۔ مگر یہ آپ کی خصوصیت نہیں ، بلکہ متعدد صحابہ اس میں آپ کے سہیم و شریک تھے۔اس وجہ سے دوسرے بہت سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر آپ کی فضیلت ثابت نہیں ہوسکتی۔تو پھر چہ جائے کہ باقی خلفاء راشدین پر آپ کی فضیلت ثابت ہوجائے‘خلیفہ کے لیے متعین ہونا تو دور کی بات ہے۔ ’’شیعہ مصنف کا یہ کہنا کہ :’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر تھے ۔‘‘ یہ بات جھوٹ ہے۔بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اشجع الناس[تمام لوگوں سے بہادر] تھے۔جیسا کہ صحیحین میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ ایک روز اہل مدینہ گھبرا کر جدھر سے آواز آرہی تھی ادھر کو چل پڑے، کیا دیکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابو طلحہ کے گھوڑے پر سوار تلوار گلے میں ڈالے اس طرف سے واپس آتے ہوئے ملے ؛ آپ پہلے ہی اس آواز کی سمت چل پڑے تھے۔ آپ فرما رہے تھے ’’ مت گھبراؤ۔‘‘ [1] امام بخاری فرماتے ہیں : آپ واقعہ کی خبر لیکر واپس آرہے تھے کہ لوگوں سے ملاقات ہوئی۔‘‘ مسند میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب سخت خطرہ کا موقع ہوتا تو آپ سب سے آگے آگے دشمن کے قریب تر ہوا کرتے تھے۔[2] شجاعت [بہادری]کی تفسیر دو چیزوں سے کی جاسکتی ہے : ۱۔ قوت قلب اور خطرات میں ثابت قدم رہنے کا نام ۔ ۲۔ جسمانی طور پر سخت جنگ وقتال کرنا‘ بہت سارے لوگوں کو قتل کرنا؛ تاکہ ایک عظیم مقتل سجادیا جائے۔ پہلی چیز شجاعت ہے ۔جب کہ دوسری چیز جسمانی قوت پر دلالت کرتی ہے اور ایسا ہر گز نہیں ہوتا کہ جس کا بدن قوی ہو اس کا دل بھی قوی ہے ‘یا اس کے برعکس معاملہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آپ مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ کوئی انسان بہت سخت جنگ