کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 435
ہاں اگر مویشیوں کے مالک نے ظلم کیا ہو‘اور مویشیوں کو لوگوں کے کھیتوں کی طرف چھوڑا ہوا؛ یا کھیتیوں کے قریب لے جاکر چھوڑا ہو؛ یا پھر گدھے کے اصطبل میں اسکے مالک کی اجازت کے بغیر داخل کیا ہو؛ اوراس نے گدھے کو ماردیا [ یا نقصان پہنچایا] تو اس موقعہ پر مالک اپنے ظلم کی وجہ سے تاوان ادا کرے گا۔
یہ مسئلہ توگدھے اور گائے کا ہے اور اگر گائے کے مالک نے کوئی کوتاہی نہ کی ہو؛ کوتاہی گدہے کے مالک کی طرف سے ہو؛تو پھر جیسا کہ اگر دن کے وقت مویشیاں کھیتی میں داخل ہوکر اسے تباہ کردیں ‘ [ویسے ہی یہ فیصلہ بھی ہوگا] اس لیے کہ گدھے کے مالک نے اس کا دروازہ بند نہیں کیا۔جیسا کہ اگر گائے گدھے کے اصطبل میں داخل ہوجائے ‘ اور گدھا سویا ہوا ہو ؛ اور گائے کے مالک نے جان بوجھ کر گائے کو وہاں چھوڑا ہو تو اس صورت میں گائے کے مالک پر تاوان ہوگا۔ مجرد گائے کی گدھے پر زیادتی یا گدھے کی گائے پر زیادتی کو مالک کی کوتاہی کے بغیر ہی اگر تاوان کا سبب قرار دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ چوپاؤں کو بھی انسان کی طرح سمجھا جانے لگا ہے اور اس کے نقصان کا تاوان اس پر لگایا جارہا ہے۔حالانکہ یہ مسلمانوں کا حکم نہیں ہے۔ جوکوئی ایسی باتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے نقل کرتا ہے ‘ وہ حقیقت میں آپ پر جھوٹ بولتا ہے۔
ہم کئی بار یہ بات کہہ چکے ہیں : یہ[شیعہ] لوگ جاہل ہیں ۔ جس چیز کو اپنے تئین مدح سمجھتے ہیں ‘ وہ اپنی طرف سے تراش کر جھوٹی مدح سرائی شروع کردیتے ہیں ۔ پس جھوٹ اور مدح کوجمع کرتے ہیں ۔نہ ہی اس میں کوئی مدح ہوتی ہے نہ ہی علم اور نہ ہی عدل ۔ وہ اپنی ان حرکات کی بنا پر خیر و عدل کی راہوں سے گمراہ ہوجاتے ہیں ۔ اس کے بارے میں کلام پہلے اس آیت کی تفسیر میں گزرچکا ہے: ﴿یَہْدِی إِِلٰی الحَقِّ﴾ [یونس 35]
فصل:....[حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بہادری]
[اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:چوتھی دلیل: ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ سب لوگوں سے زیادہ شجاع تھے۔ آپ کی تلوار سے اسلام کے قواعد و ارکان ایمان میں پختگی آئی۔آپ کبھی بھی کسی بھی موقع پر پسپا نہیں ہوئے۔اور نہ ہی کبھی اپنے کسی قرابت دار کو تلوار سے قتل کیا اور تلوار ہی سے آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تکلیفات کو دور کیا۔ آپ دوسرے لوگوں کی طرح جنگ سے کبھی نہیں بھاگے تھے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بستر پر رات گزاری تو اپنی جان پر کھیل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت فرمائی۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر لپیٹ کر سو گئے۔ مشرکین نے آپ کو ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم گمان کیا۔حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے پر تمام مشرکین کااتفاق ہو گیا تھا ؛ اورا نہوں مسلح ہوکر آپ کا گھیراؤ کرلیا تھا۔وہ [نماز] فجر کا انتظار کررہے تھے تاکہ آپ کو کھلے عام قتل کریں ۔اور آپ کا خون قبائل میں بٹ جائے۔اور بنی ہاشم دیکھ لیں کہ قاتلین میں ہر قبیلہ کے لوگ موجود ہیں ؛ اور ان کے لیے اتنی بڑی تعداد کے قتل میں شریک ہونے کی وجہ سے خون کا بدلہ لینا ممکن نہ رہے۔اور ہر قبیلہ اپنے افراد کی حفاظت کے لیے مستعد رہے۔یہ[تدبیر] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خون کی حفاظت کا سبب
[1] سنن أبي داؤد ۳؍۴۰۳؛ کتاب البیوع و الإجارات ‘ باب المواشی تفسد زرع قوم؛ (ح: ۳۵۶۹؛ ۳۵۷۰۔ سنن ابن ماجۃ ۲؍۷۸۱؛ کتاب الأحکام ‘ باب: الحکم فیما أفسدت المواشي۔ الموطأ ۲؍۷۴۷؛کتاب الأقضیۃ باب القضاء في الضواري والحریسۃ ۔اس روایت کا شمار مراسیل ثقات میں ہوتا ہے۔اہل حجاز اوراہل عراق علماء کے ہاں اسے قبول حاصل ہے۔اہل مدینہ کے ہاں اسی پر عمل ہے ۔
[2] المحلی ۸؍۱۴۶۔ ابن حزم فر ماتے ہیں : ’’رات اوردن میں کسی وقت بھی چوپایہ کوئی جانی یا مالی نقصان کردے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہے۔لیکن اس کے مالک سے کہا جائے گا کہ اسے باندھ کر رکھے۔اگروہ اسے باندھ کر رکھے تو درست ہے ۔ اگر دوبارہ ایسی حرکت کا ارتکاب کیا تو جانور بیچ کر تاوان ادا کیا جائے گا۔اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے :’’اگر جانور کسی کو زخمی کردے تواس کے مالک سے تاوان نہیں لیا جائے گا۔‘‘ یہی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ابو سلیمان رحمہ اللہ کامسلک ہے ۔ جب کہ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ چوپایہ رات یا دن میں کسی وقت بھی کوئی نقصان کردے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہے۔ قاضی شریح اور امام شعبی رحمہما اللہ کا یہی فیصلہ ہے۔انہوں نے اسی حدیث براء سے استدلال کیا ہے۔ ابو محمد ابن حزم فرماتے ہیں : اگر یہ حدیث صحیح ثابت ہوجاتی تو ہم اسے ہی اختیار کرتے۔ مگر یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ نیز انہوں نے حضرت سلیمان کے فیصلہ سے بھی استدلال کیا ہے ۔ اورکہا ہے : اس کی موجود گی میں اگر کوئی حدیث ہوتی بھی تو اس کا کوئی تاوان نہ ہوتا۔