کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 434
’’اگر جانور کسی کو زخمی کردے تواس کے مالک سے تاوان نہیں لیا جائے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری ومسلم اور دوسرے محدثین نے روایت کیا ہے ‘اوراس کے صحیح ہونے پر علماء کرام کا اتفاق ہے ؛ اور اسے قبولیت بھی حاصل ہے اوراس پرعمل بھی ہے۔ عجماء أعجم کی تانیث ہے۔ہر چوپایہ جیسے :گائے؛ بھیڑ وغیرہ عجماء کہلاتاہے۔ اس حدیث سے مستفاد ہوتا ہے کہ جب کوئی گائے یا بکری یا گدھا کسی چراگاہ میں چر رہے ہوں اوروہ کسی کے کھیت میں جا داخل ہوں ؛ کھیت کو تباہ کردے یا گدھے کو مار دے[یازخمی کردے]۔ دن کا وقت ہو اور مالک کا اس میں کوئی قصور نہ ہو؛ تو مویشی کے مالک سے کھیت کا تاوان وصول نہیں کیا جائے گا۔اس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔اس لیے کہ اس میں اس چوپائے کے مالک کا قصور نہیں ہے۔ ہاں اگر رات کے وقت کسی کا مویشی کھیت میں داخل ہو کر نقصان کردے تو بقول اکثر علماء جیسے : امام مالک و شافعی و احمد رحمہم اللہ مویشی کا مالک نقصان کا ضامن ہو گا۔انکی دلیل حضرت سلمان علیہ السلام کے پاس پیش ہونے والا بکریوں اور کھیت کا معاملہ اور حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی اونٹنی کا قصہ ہے ؛ جوکہ ایک کھیت میں داخل ہوگئی تھی اور اسے تباہ کردیا تھا ۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا: جن کے مویشیوں نے رات کو نقصان کیا ہے ‘ان پر تاوان ہے ۔ اور باغ والوں کو اس باغ کی حفاظت کرنے کا حکم دیا۔[1] جب کہ امام ابوحنیفہ و ابن حزم اور دوسرے علماء کرام رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ:’’ مالک ضامن نہیں ہوگا۔‘‘ اور اسے بھی جملہ طور پر عجماء کے حکم میں شامل مانا ہے۔ اور ان میں سے بعض نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی اونٹنی کے واقعہ کو ضعیف قراردیا ہے۔[2]
[1] البخاری کتاب التفسِیرِ، سورۃ النورِ، باب ویدر عنہا العذاب۔سننِ بِی داود۲؍۳۷۰:کتاب الطلاقِ، باب فِی اللِعان۔سننِ التِرمِذِیِ۵؍۱۲؛ کتاب التفسِیرِ، سورۃ النورِ۔ [2] صحیح بخاری، کتاب الدیات، باب المعدن جبار(حدیث:۶۹۱۲)، صحیح مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب جرح العجماء جبار(حدیث:۱۷۱۰)۔