کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 433
کی ضرورت پیش آتی۔اور نہ ہی جس کے حق میں فیصلہ کردیا ہوتا اسے وہ چیز لینے سے منع فرماتے ۔ اور نہ ہی زوجین میں لعان کے ذریعہ تفریق کی جاتی۔اور آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا: ’’ اگریہ عورت اس شکل وصورت کا بچہ پیدا کرے تو وہ اس کے شوہر کا ہوگا اوراگر اس شکل و صورت کا ہوا تو اس کا ہوگا جس پر الزام لگایا گیا ہے ۔‘‘
پھرجب عورت کوبچہ پیدا ہوا تو وہ ناپسندیدہ شکل و صورت کا تھا ؛ تو آپ نے فرمایا: ’’ اگر کتاب اللہ میں اس کا فیصلہ پہلے نہ ہوچکا ہوتا تو میں اس کا فیصلہ خود کرتا۔ ‘‘[1] پس آپ نے قسم کی بنا پر حکم کو نافذ کیا گواہی کی بنیاد پر نہیں ۔
اگر شیعہ کہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو الہام کے ذریعہ شرعی احکام سے باخبر کیا جاتا تھا تو اس کے اثبات کے لیے کسی شرعی دلیل کی ضرورت ہے؛ صرف الہام کی بنیاد پر فیصلہ کرنا جائزنہیں ۔اس لیے کہ جس انسان کے بارے میں نص سے ثابت ہے کہ اسے الہام ہوتاہے وہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں ؛ احادیث صحیحہ میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ اُمَم سابقہ میں مُلہم من اﷲ ہوا کرتے تھے، اگر میری امت میں ایسا کوئی شخص ہوا تو وہ عمر رضی اللہ عنہ ہیں ۔‘‘[سبق تخریجہ]
اس کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے دل میں کیے جانے والے الہام کی بنا پر کوئی فیصلہ صادر کرنے ؛ فتوی دینے یا عمل کرنے کا حق نہ تھا جب تک کہ وہ اسے کتاب و سنت پر پیش نہ کرتے۔ اگر ان کا الہام کتاب و سنت کے معیار پر پورا اترے گا تو اسے قبول کیا جائے گا ورنہ نہیں ۔
[اشکال] :شیعہ مصنف ذکر کرتا ہے کہ:’’ ایک گائے نے ایک گدھے کو مارڈالا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کے بارے میں فیصلہ صادر کیا تھا۔‘‘
[جواب]: [شیعہ نے اس کی کوئی اسناد ذکر نہیں کی]اورنہ ہی اس کی کوئی معروف سند ہے۔اور نہ ہی کتب حدیث و فقہ میں اس کا کوئی وجود ہے؛حالانکہ فقہاء کرام رحمہم اللہ کو اس قسم کے مسائل میں نص کی بہت سخت ضرورت ہوتی ہے۔ توپھر کسی ایسی چیز سے صحت امر پر کیسے استدلا کیا جاسکتا ہے ؛ جب کہ خود اس میں کوئی صحت نہیں پائی جاتی؛ بلکہ دلائل اس کی تردید کرتے ہیں ۔
اس کے ساتھ ہی یہ جو حکم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کیا گیا ہے ‘ اور یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے برقرار رکھا۔اگر اس کو اس کے ظاہر پر محمول کیا جائے تو یہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوراجماع مسلمین کے خلاف ہوگا۔ اس لیے کہ صحیح احادیث میں ثابت ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ جُرْحُ الْعُجَمَآئِ جُبَارٌ‘‘[2]
[1] سے ایک آدمی اس گڑھے میں گرگیا۔ اس نے گرتے گرتے دوسرے آدمی کو پکڑ لیا؛ دوسرے نے تیسرے کو اور تیسرے نے چوتھے کو پکڑ لیا۔ یہ چاروں انسان اس گڑھے میں گر گئے اور شیر نے انہیں زخمی کردیا۔ پھر ایک آدمی بھالا لیکر آیا اور اس نے شیر کو مار ڈالا۔ مگریہ چاروں زخمی بھی مر گئے۔ پہلے انسان کے رشتہ دار کھڑے ہوگئے تاکہ وہ دوسرے مرنے والے کے رشتہ داروں سے دیت وصول کریں ۔ یہاں تک کہ یہ لوگ اسلحہ نکال لائے ۔ اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ ان لوگوں کے پاس پہنچے ۔ آپ نے فرمایا:’’ کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایک دوسرے سے جنگ کرو گے؟میں تمہارے درمیان ایک فیصلہ کرتا ہوں ؛ اگر تم اس پر راضی ہوجاؤ تو ٹھیک ہے؛ ورنہ تمہیں بند کردوں گا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور ان سے فیصلہ کروالاؤ۔اس کے علاوہ کوئی تیسری چیز نہیں ہوسکتی۔ فیصلہ یہ ہے کہ : جن لوگوں نے گڑھا کھودا تھا؛ ان سے دیت جمع کرو ۔دیت ایک چوتھائی ؛ ایک تہائی نصف اور پوری دیت ہونی چاہیے۔ پہلے انسان کے لیے چوتھائی دیت ہے۔اس لیے کہ اس نے اپنے اوپر والے کو بھی ہلاک کیا ہے۔ دوسرے انسان کے لیے ایک تہائی دیت ہے۔ اور تیسرے کے لیے آدھی دیت ہے۔ ان لوگوں نے یہ فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے گئے ۔ آپ اس وقت مقام ابراہیم کے پاس تھے۔ ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پورا قصہ سنایا۔ ....ان میں سے ایک آدمی نے کہا: یارسول اللہ ! حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہمارے درمیان یہ فیصلہ کیا تھا۔ اور پھر پورا قصہ سنایا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فیصلہ کو باقی رکھا۔ مجمع الزوائد ۶؍۲۸۷۔ صحح أحمد شاکرسندہ في أربعۃ مواقع۔