کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 432
یہ حدیث دوسری حدیث کی نسبت زیادہ ثابت ہے؛ جسے سماک بن حرب روایت کیا ہے ؛ اور امام احمد رحمہ اللہ نے اسے قبول کیا ہے۔جب کہ وہ تین جو کہ اپنی منزل کو نہ پاسکے ؛ ان کی روایت یا توآپ تک پہنچی نہیں ‘ یا پھر آپ کے نزدیک وہ روایت ثابت نہیں ۔ امام احمد رحمہ اللہ کو آثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بہت زیادہ علم اور صحیح وسقیم کی معرفت حاصل تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا عادل قاضی ہونا آپ کی فضیلت کی دلیل ہے ۔ اس میں کسی کو کوئی جھگڑا ہی نہیں ۔لیکن اس میں یہ دلیل کہیں بھی نہیں پائی جاتی کہ آپ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بڑھ کر عادل تھے۔ [اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ مسائل کا حل الہام کے ذریعے معلوم کرلیا کرتے تھے۔‘‘ [جواب]: ہم کہتے ہیں کہ:’’ یہ غلط بات ہے۔ اس لیے کہ صرف الہام کی بنا پر فیصلہ کرنا ؛ یعنی اس طرح سے کسی انسان کے بارے میں الہام ہوگیا کہ وہ حق پر ہے؛ صرف اس الہام کی اساس پر دین اسلام میں کوئی فیصلہ کرنا حلال و جائز نہیں ہے ۔صحیح حدیث میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے : بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بیشک تم میرے پاس اپنے جھگڑے پیش کرتے ہو؛ اوربسااوقات ایک انسان اپنی بات پیش کرنے میں دوسرے کی نسبت زیادہ تیز زبان والا ہوتا ہے؛ اور اس میں اسی کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں جس طرح سنتا ہوں ۔پس جس کے لیے میں اس کے بھائی کے حق میں سے کسی چیز کا فیصلہ کردوں ‘ اسے چاہیے کہ وہ نہ لے ؛ بیشک میں اس کے لیے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دیتا ہوں ۔‘‘ اس حدیث میں آپ نے خبر دی ہے کہ میں خود سن کر فیصلہ دیتا ہوں ‘ صرف الہام کی بنیاد پر نہیں ۔ اوراگر الہام کے ذریعہ شرعی احکام ثابت ہو جاتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سب سے زیادہ حق دار تھے۔ اﷲتعالیٰ وحی کے ذریعہ آپ کو مطلع کرتے کہ حق دار کون ہے اور اس طرح آپ کو شہادت کی ضرورت بھی لاحق نہ ہوتی؛اور نہ ہی مجرم سے اقرار کروانے [1]
[1] ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یہاں پر روٹیوں کا قصہ ذکر نہیں کیا جیسا کہ ابن مطہر نے ذکر کیا ہے ۔ وہ کہتا ہے: آپ نے دیگر کئی مشکل مسائل حل کیے۔ آپ کے پاس دو آدمی حاضر ہوئے۔ایک کے پاس پانچ روٹیاں تھیں اور دوسرے کے پاس تین ۔جب دونوں کھانے کے لیے بیٹھ گئے تو ایک تیسرا آدمی بھی آگیا۔ اور کھانے میں ان کے ساتھ شریک ہوگیا۔جب کھانا کھا چکے تو وہ ان کی طرف آٹھ درہم پھینک کر چلا گیا۔ زیادہ روٹیوں والے نے ان میں سے پانچ درہم طلب کیے مگر کم روٹیوں والا نہ مانا۔ یہ دونوں اپنے جھگڑے کا فیصلہ کروانے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔اس آدمی نے کہا: ’’اے امیر المؤمنین! میرا حق زیادہ بنتا ہے؛اور میں تمہارے پاس انصاف کے لیے حاضر ہوا ہوں ۔ تو آپ نے فرمایا: ’’ اگر ایسا ہی ہے تو ایک درہم لو ‘ اور اپنے دوسرے ساتھی کو باقی دراہم دے دو۔‘‘ [2] ابن مطہر نے لکھا ہے کہ : دو مالک ایک لونڈی پر ایک ہی طہر میں واقع ہوگئے۔لونڈی حاملہ ہوگئی۔پس مسئلہ میں اشکال پیدا ہوگیا۔ یہ معاملہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس پیش کیا گیا۔تو آپ نے قرعہ اندازی کرنے کا حکم دیا۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فیصلہ کو درست قرار دیا۔ اور فرمایا: ’’ تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہم اہل بیت میں ایسے لوگوں کو پیدا کیا جو حضرت داؤد علیہ السلام کی سنتوں کے مطابق فیصلے کرتے ہیں ۔یعنی ان کے فیصلے الہام پر مبنی ہوتے ہیں ۔‘‘یہ قصہ دیکھیں : ’’ سنن ابی داؤد ‘ کتاب الطلاق ‘ باب : من قال بالقرعۃ إذا تنازعوا في الولد۔ یہ حدیث ضعیف اور ناقابل استدلال ہے۔اس کی سند میں یحیٰ بن عبداللہ الکندی نامی ایک راوی ہے جسے اجلح کہا جاتاہے۔یحیٰ بن معین اور عجلی نے اسے ثقہ کہا ہے۔ علامہ منذری کہتے ہیں : اس کی روایت سے استدلال نہیں کیا جاسکتا۔ ابن عدی فرماتے ہیں : اس کا شمار شیعہ میں سے ہوتا ہے؛مستقیم الحدیث ہے۔ امام نسائی نے اسے ضعیف کہا ہے۔ امام خطابی کہتے ہیں : حضرت زید بن ارقم والی حدیث کی سند میں کلام کیا گیا ہے۔علامہ منذری فرماتے ہیں : یہ روایت مرسل سند سے نقل کی گئی ہے۔‘‘ ابو داؤد نے یہ روایت دو سندوں سے نقل کی ہے۔ ایک روایت عبداللہ بن خلیل نے زیدبن ارقم سے نقل کی ہے اور دوسری سند میں عبد خیر نے زید سے روایت کیا ہے۔ [3] زبیہ کا مسئلہ امام احمد رحمہ اللہ نے مسند میں نقل کیا ہے : حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن بھیجا۔ہم ایک ایسی قوم کے پاس پہنچے جنہوں نے شیر کو مارنے کے لیے ایک گڑھا کھودا تھا۔ وہ لوگ ایسے ہی شیر سے اپنا دفاع کررہے تھے کہ ان میں(