کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 427
[جواب]: ہم کہتے ہیں کہ:’’ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دینی امور میں صرف آپ کی طرف ہی؛یا کسی دوسرے فرد واحد کی طرف ہی رجوع نہیں کیا کرتے تھے۔بلکہ جب کوئی نیا مسئلہ پیش آتا تو فاروق اعظم رضی اللہ عنہ حضرت علی، عثمان، ابن عوف، ابن مسعود، زید بن ثابت اور ابو موسیٰ رضی اللہ عنہم کے ساتھ مشورہ فرمایا کرتے تھے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما صغیر السن ہونے کے باوجود اس مشورہ میں شرکت فرماتے۔اور سوال کرنے والا کبھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سوال کرتا اور کبھی ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے اور کبھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ مسائل دریافت کیے گئے۔اور آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت زیادہ مشکل مسائل کے جوابات دیے۔اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بڑے عالم تھے ؛ بلاشبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ سے بڑے عالم تھے ؛ مگر اس کا سبب یہ ہوا کہ جو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نہیں پاسکے تھے ؛ انہیں اس چیز کی ضرورت پیش آئی۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق کسی ایک نے بھی یہ نقل نہیں کیا کہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کچھ علمی استفادہ کیا ہو۔ بلکہ یہ منقولات موجود ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے علمی استفادہ کیا ہے جیسا کہ نماز توبہ کی حدیث (اوراس طرح کے دیگر مسائل)۔ [سنن الترمذی ‘ و أبوداؤد و ابن ماجۃ ]۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کثیر العلم ہونے کے باوصف مشکل مسائل میں مشورہ لینے کے عادی تھے۔لوگ اکثر آپ کے قول کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔ مثلاً عمر یتین اور ’’عول‘‘ کے مسئلہ میں صحابہ نے آپ کے قول پر عمل کیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اوّلین شخص تھے جنھوں نے یہ فیصلہ صادر کیا تھا کہ جب میت کا خاوند اور والدین یا بیوی اور والدین موجود ہوں تو میت کی ماں کو باقی ماندہ ترکہ کا ایک تہائی ملے گا۔ اکابر صحابہ و فقہاء مثلاً حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، ابن مسعود، علی، زید اور ائمہ اربعہ نے اس مسئلہ میں آپ کا اتباع کیا تھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول کا پتہ نہ چل سکا اور انھوں نے یہ فتویٰ دیا کہ میت کی ماں کو پورے ترکہ کا ایک تہائی ملے گا۔ صحابہ کی ایک جماعت نے آپ کے قول کو اختیار کیا ہے، مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول اقرب الی الصحت ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فاروق نے صرف ایک مسئلہ میں فرمایا تھا کہ:’’ اگر علی نہ ہوتے تو عمر رضی اللہ عنہ ہلاک ہو جاتا۔‘‘
بشرطیکہ اس روایت کی صحت ثابت ہو جائے، اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس قسم کے الفاظ ان لوگوں کے حق میں بھی کہہ دیا کرتے تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فروتر درجہ کے لوگ ہوا کرتے تھے۔ جس عورت نے مہر کے مسئلہ میں آپ سے تکرار کی تھی اس کے بارے میں آپ نے فرمایا تھا:’’آدمی نے غلطی کھائی اور عورت کی بات صحیح نکلی۔‘‘[1]
اس کی اصل یہ ہے کہ آپ کی رائے یہ تھی کہ عورت کے مہر کی شریعت میں مقدار مقرر ہونی چاہیے۔لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اور بیٹیوں کے مہر سے زیادہ مہر نہیں ہونا چاہیے۔ جیساکہ بہت سارے فقہاء کا خیال ہے کہ عورت کے