کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 426
لوگ گمراہی کا شکار ہیں ۔یہ بالکل اسی کلام کی جنس میں سے ہے جو کہ غالی شیعہ ان میں سے کسی ایک کے نبی ہونے یا اس سے بھی افضل یعنی خدا ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔
یہ تمام عقائد ایسا کھلا ہوا کفر ہیں جس میں کسی بھی مسلمان عالم کو ذرا بھر بھی شک نہیں ہوسکتا۔یہ بالکل وہی عقیدہ ہے جو کہ میمون قداح کی اولاد اسماعیلیہ کا عقیدہ تھا۔ان کا دادا ایک یہودی کے پاس لے پالک تھا۔ ان کا خیال ہے کہ یہ لوگ محمد بن اسماعیل بن جعفر کی اولاد ہیں ۔ ان کے بہت سارے پیروکاران ان کے خدا یا نبی ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔اور ان کا عقیدہ ہےکہ محمد بن اسماعیل بن جعفر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کردیا تھا۔
یہی حال اس گروہ کا بھی ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ یا بعض دیگر اہل بیت کے خدا ہونے یا نبی ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ خواہ یہ لوگ اثنا عشریہ میں سے ہوں یا دوسروں میں سے ۔
یہی حال جھوٹے صوفیاء اور زہاد کے ایک گروہ کا ہے جو اپنے مشائخ اور پیروں کے خدا ہونے یا نبی ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔یا پھر ان کے انبیاء کرام سے بھی افضل ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں کہ : خاتم الاولیاء خاتم الانبیاء سے افضل ہے۔ اور ان میں سے ایک گروہ ایسا بھی ہے جو اولیاء کو انبیاء کرام سے افضل مانتے ہیں ۔
ابن عربی اور اس طرح کے بعض دوسرے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ خاتم الانبیاء خاتم الاولیاء سے استفادہ کیا کرتے تھے۔اور بعض لوگ یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ: ’’ ایک کامل فلسفی نبی سے بڑھ کر علمی حقائق او رمعارف الٰہیہ کا جانکار و شناساہوتا ہے۔
اہل اسلام کا اتفاق و اجماع ہے کہ یہ عقائد کفر اور دین اسلام کے مخالف ہیں ۔اور جو کوئی انسان اس قسم کا عقیدہ رکھتا ہو اس سے توبہ کروائی جائے گی۔جیسا کہ ان جیسے دوسرے کفریہ کلمات کہنے والے اور کھلم کھلا مرتدین سے توبہ کروائی جاتی ہے۔ اگر ان عقائد کا کھل کر اظہار نہ کیا جارہا ہو تو پھر بھی یہ عقیدہ رکھنے والوں کا شمار اہل نفاق اور زندیق لوگوں میں سے ہوتا ہے۔
اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ بعض لوگوں پر ایسے عقائد کا دین اسلام کے مخالف ہوتا مخفی رہ جاتا ہے اس کی وجہ یا تو ان لوگوں کا نیا نیا مسلمان ہونا ہے ‘اور پھر ایسے لوگوں میں ان کا موجود ہونا ہے جو بالکل جاہل ہوں اور اس قسم کا عقیدہ رکھتے ہوں ۔ تویہ انسان بھی اسی انسان کی طرح ہوگا جو نماز کے واجب ہونے سے لاعلم ہو ؛یا اس کا نظریہ ہو کہ واجبات عوام الناس پر عائد ہوتے ہیں خواص پر نہیں ۔
[ صحابہ اورفتاویٰ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف رجوع ]:
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’صحابہ مشکل مسائل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف رجوع کیا کرتے تھے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بہت سے فیصلے مسترد کردیے تھے؛ یہ دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’ اگر علی نہ ہوتے تو عمر رضی اللہ عنہ ہلاک ہو جاتا۔‘‘
[1] اگر فی الواقع حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ الفاظ فرمائے تھے کہ’’اَنَا اَعْلَمُ بِطُرُقِ السَّمَآئِ‘‘ تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں جانتا ہوں کہ آسمان والے کن اوامر و نواہی پر عمل کرکے تقرب حاصل کرتے ہیں ۔اوریہ کہ میں عبادت کرنے کے طریقہ اور جنت و ملائکہ سے بخوبی آگاہ ہوں ، جب کہ زمین پر مجھے ان چیزوں کا علم حاصل نہیں ۔ یہ مراد نہیں کہ آپ بجسد عنصری آسمان پر چڑھ گئے ہیں ۔ کوئی مسلم یہ بات نہیں کہتا۔ یہ روایت موضوع ہے اور اس کی اسناد کا کچھ پتہ نہیں ۔