کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 424
کتاب میں مذکور ہیں ؟ کس نے ان کو نقل کیا اور ان کی اسناد کیا ہے ؟ ورنہ صرف دعویٰ کرنا کچھ مشکل نہیں ہے، ہر کوئی دعوی کرسکتا ہے ۔جو شخص محدثین کے طریق کار سے آشنا ہے اور اخبار و آثار کو اسانید کے ساتھ پہچاننے کا سلیقہ رکھتا ہے وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ جو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس قسم کی باتیں نقل کرتے ہیں ، وہ منقولات سے بے بہرہ ہیں اور صدق و کذب میں تمیز نہیں کر سکتے۔
فصل:....حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آسمانوں کے راستہ کا علم
[اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے گم ہوجانے سے پہلے جو پوچھنا چاہو، پوچھ لو، مجھ سے آسمان کے راستوں کے بارے میں پوچھو مجھے زمین کے راستوں سے ان کا زیادہ علم ہے۔‘‘
[جواب]:ہم کہتے ہیں : حضرت علی رضی اللہ عنہ یقیناً یہ بات مدینہ میں ہرگزنہیں کہا کرتے تھے جہاں ان کی طرح اور بھی مہاجر و انصار اہل علم صحابہ موجود تھے ۔جنہوں نے ویسے ہی علم حاصل کیا تھا جیسے آپ نے علم حاصل کیا تھا۔اور ویسے ہی معرفت حاصل کی جس طرح آپ نے معرفت حاصل کی تھی۔ بلکہ آپ نے یہ الفاظ اس وقت فرمائے جب آپ عراق چلے گئے ۔وہاں بہت سارے لوگ اسلام میں داخل ہوئے تھے جو دین کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے تھے۔آپ میں ان لوگوں کے درمیان اقامت گزیں تھے جو علم دین سے بے بہرہ تھے، آپ وہاں ایک امام کی حیثیت رکھتے تھے جس پر رعایا کی تعلیم و تربیت اور فتوی دینا واجب ہوتا ہے۔آپ یہ بات ان لوگوں سے اس لیے فرمایا کرتے تھے کہ :لوگ علم حاصل کریں ‘ اور فتوی پوچھیں ۔ جس طرح وہ صحابہ کرام جو بہت بعد تک زندہ رہے ؛ اور لوگ ان کے علوم کی طرف محتاج ہوئے۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ احادیث روایت کی ہیں جو خلفاء اربعہ یا دوسرے اکابر صحابہ کرام نے روایت نہیں کیں ۔اس لیے کہ پہلے کے لوگ ان کونقل کرنے سے مستغنی تھے۔اس لیے کہ اس دور میں تمام لوگوں نے ایک ہی مصدر سے تعلیم پائی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت ابن عمر؛ ابن عباس ‘ عائشہ ‘ انس و جابر ‘ابوسعید رضی اللہ عنہم اوراس طرح کے دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وہ روایات نقل کی گئی ہیں وہ جو حضرت علی اورحضرت عمر رضی اللہ عنہما سے منقول نہیں ہیں ۔جب کہ حضرت عمر و حضرت علی رضی اللہ عنہما ان بقیہ صحابہ کرام سے زیادہ بڑے عالم تھے۔لیکن لوگوں کو ان کے علوم کی ضرورت محسوس ہوئی ؛ اور اس لیے بھی کہ ان کی تاریخ وفات متأخر ہے ۔ انہیں ان تابعین نے پایا جو ان سے پہلے لوگوں کو نہیں پاسکے تھے۔پس انہیں سوال کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔اوروہ لوگ یہ سمجھے کہ انہیں سمجھائیں او رحدیث بیان کریں ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا کوفہ میں یہ ارشادفرمانا کہ :’’مجھ سے پوچھ لو ‘‘ یہ بھی اسی باب سے تعلق رکھتا ہے۔ایسی بات حضرت عبداللہ بن مسعود ‘ ابی بن کعب ‘ معاذ‘ ابی درداء؛اورسلمان اور ان کے امثال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی ارشاد نہیں فرمائی ۔ چہ جائے کہ حضرت عمر و حضرت عثمان رضی اللہ عنہما سے ایسی بات کہتے ۔
[1] ان خطبات کا جامع محمد بن حسین رضی المتوفی ۴۰۶ھ ہے۔ یہ قطعی بات ہے کہ رضی نے اپنے بھائی علی بن حسین مرتضیٰ المتوفی ۴۲۶ھ کے اشتراک سے ان خطبات میں اضافہ کیا تھا۔خصوصاً وہ جملے جو صحابہ کبار رضی اللہ عنہم کی گستاخی سے متعلق ہیں وہ یقیناً بے اصل اور من گھڑت ہیں ۔