کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 423
کی اور لے لگانے والوں کی ایجاد ہے۔صحابہ اور تابعین میں سے خطباء کرام کی یہ عادت نہیں تھی۔حالانکہ ان میں بڑے بڑے فصحاء موجود تھے۔ اورنہ ہی عرب لوگ ایسی باتوں کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ اکثر طور پر جو لوگ ایسی حرکت کرتے ہیں وہ معانی مطلوبہ کے بغیر صرف الفاظ کو ہی خوبصورت بناتا ہے ۔اس کی مثال اس مجاہد کی جو اپنے اسلحہ پر تونقش و نگار کرتا ہو‘مگرخود و ہ بڑا بزدل ہو۔‘‘ [بخلاف ازیں بلاغت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کم از کم الفاظ میں اپنا مافی الضمیرواضح کردیا جائے۔ چنانچہ ایک بلیغ آدمی معانی مقصودہ کو بطریق احسن سامعین پر واضح کردیتا ہے]۔
اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ ایسے شاعر بھی ہیں جب وہ مدح یا ہجو میں زیادہ گہرائی میں جاتے ہیں تو حقیقت سے ہٹ کر افراط و تفریط اور جھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں ؛ اور تخیلات و تمثیلات سے مدد لینے لگتے ہیں ۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ نہج البلاغۃ کے اکثر خطبات من گھڑت ہیں [1]وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا کلام نہیں ہوسکتے۔بلکہ آپ پر جھوٹ گھڑاگیا ہے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان ومنزلت اور قدر اس سے بہت بلند ہے کہ وہ اس قسم کا کلام کریں ۔ مگر شیعہ نے مدح گوئی کے نقطہ خیال سے ان کو وضع کیا تھا حالانکہ ان میں صداقت و مدح دونوں کا کوئی عنصر شامل نہیں ہے۔
[ [اشکال ]:شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کا کلام کلام مخلوق سے بالا ہے۔‘‘]
[جواب]:یہ قول[ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی پر مشتمل ہے اور] بہت بڑی غلط بیانی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام ہر کلام سے بلند و بالا ہے۔ اور یہ دونوں کلام مخلوق ہیں ۔یہ اسی طرح ہے جیسے ابن سبعین نے کہا تھا:یہ کلام ایک لحاظ سے انسانی کلام سے ملتا جلتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی کلام کو کلام الٰہی کے مماثل قرار دیا جائے، ظاہر ہے کہ ایک مسلم اس طرح نہیں کہہ سکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ کلام حضرت علی رضی اللہ عنہ میں جو باتیں صحیح ہیں ، وہ دوسروں کے کلام میں بھی پائی جاتی ہیں ۔ مگر صاحب نہج البلاغۃ کی ستم ظریفی پر ہے کہ اس نے بہت سارے دوسرے لوگوں کے کلام کو آپ کی طرف منسوب کردیا ہے۔ بعض باتیں جو آپ کی طرف منسوب ہیں وہ درست ہیں ۔ نہج البلاغۃ میں مندرج بعض باتیں بجائے خود صحیح ہیں اور وہ کلام علی ہو سکتی ہیں ، مگر دراصل وہ آپ کی فرمودہ نہیں ہیں ، بلکہ دوسروں کا کلام ہے۔ مشہور ادیب جاحظ کی کتاب ’’البیان والتبیین‘‘ میں کثرت سے دوسرے ادباء کا کلام نقل کیا گیا ہے۔ مگر صاحب نہج البلاغۃاسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ نہج البلاغۃ کے خطبات اگر فی الواقع حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فرمودہ ہوتے تو نہج البلاغۃ کے مصنف سے پہلے ان کا بااسناد یا بے اسناد پایا جانا ضروری تھا۔ حالانکہ ان میں سے اکثر کا نہج البلاغۃ کے مصنف سے قبل کہیں پتہ نہیں ملتا۔ اس سے ان خطبات کا جھوٹا ہونا واضح ہوتا ہے۔ ورنہ ناقل ہمیں بتائے کہ یہ خطبات کس