کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 422
نیز فرمایا: ﴿اِِنَّ رَبَّہُمْ بِہِمْ[ یَوْمَئِذٍ لَّخَبِیْرٌ ]﴾ [عادیات۱۱] ’’بیشک ان کا رب اس دن ان سے خبر دار ہوگا۔‘‘ اوراس طرح کی دیگر آیات بھی ہیں ۔پس آپ نے کبھی بھی مجانست کے لیے تکلف نہیں کیا۔بلکہ تابع بغیر قصد کے خود ہی آتا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں شعری اوزان تو موجود ہیں لیکن ان سے مقصودشعر نہیں ؛جیساکہ فرمان الٰہی ہے: ﴿وَ جِفَانٍ کَالْجَوَابِ وَ قُدُوْرٍرّٰسِیٰتٍ﴾ [سباء ۱۳] ’’ اور حوضوں جیسے لگن اور ایک جگہ جمی ہوئی دیگیں ۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿نَبِّیْٔ عِبَادِیْٓ اَنِّیْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْم﴾ [الحجر۴۹] ’’میرے بندوں کو خبر دے دے کہ بے شک میں ہی بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والاہوں ۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَوَضَعْنَا عَنکَ وِزْرَکَ Oالَّذِیْ اَنْقَضَ ظَہْرَکَ ﴾ [انشراح ۲۔۳] ’’اور ہم نے تجھ سے تیرا بوجھ اتار دیا۔ وہ جس نے تیری پیٹھ توڑ دی۔‘‘ جب کہ بلاغہ مامور بہ علم ہے ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَ قُلْ لَّہُمْ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیْغًا ﴾ [النساء۶۳] ’’ ان سے ایسی بات کہہ جو ان کے دلوں میں بہت اثر کرنے والی ہو۔‘‘ یہ علم بیان و معانی پر مشتمل ہے۔پس اس کے ایسے معانی ذکر کیے جاتے ہیں جو مطلوب کے لحاظ سے زیادہ مناسب ہوں اوروہ الفاظ ذکر کیے جاتے ہیں جو ان معانی کے بیان کرنے میں زیادہ کامل ہوں ۔ بس بلاغت غایت مطلوب یا غایت ممکن تک پہنچنے کا نام ہے۔ یعنی ان معانی میں بیان کیا جائے جن میں زیادہ سے زیادہ بیان ہونا ممکن ہو۔ پس بلیغ انسان دو چیزوں کو جمع کرتا ہے : معانی مقصودہ کی تکمیل اور ان کا اچھے انداز میں بیان ۔ بعض لوگوں کی ساری ہمت علم معانی کی طرف ہوتی ہے ‘مگر وہ بیان کے الفاظ میں اس کا حق پورا نہیں کرسکتا۔ اور بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے نفس میں معانی کو تو بیان کرلیتے ہیں ۔مگر ان معانی سے وہ مقصود حاصل نہیں ہوتا جو اس مقام پر مطلوب ہے۔پس مخبر کا مقصد تو مخبر بہ کی تحقیق ہے ۔ جب وہ اسے بیان کرے ‘ اور اس چیز کو بھی بیان کرے جس سے اس کا ثبوت محقق ہوسکتاہو‘تو اس کی یہ منزلت نہیں ہوگی جس سے مخبر بہ محقق ہوسکے ۔یا وہ اس طرح سے بیان نہیں ہوگا جس سے اس کے ثبوت کاعلم ہوسکے۔ حکم دینے والے کا مقصود مطلوبہ حکمت کا حاصل ہونا ہے۔ پس جو کوئی حکم دے او راچھی طرح حکم نہ دے سکے‘ یا اس میں موجود حکمت کو نہ بیان کرسکے‘ وہ اس انسان کی طرح نہیں ہوسکتاجو حکمت کے ساتھ حکم دے اور حکمت کی وجہ کو بھی بیان کرے۔ گلا پھاڑنافصاحت نہیں اور نہ ہی تجنیس اور مسجع اوزان کو بلاغت کہتے ہیں ۔ یہ سب کچھ متأخر شعراء و ادباء اور وعاظ
[1] صحیح بخاری، کتاب الحدود۔ باب رجم الحبلی فی الزنا (حدیث:۶۸۳۰)۔ [2] مستدرک حاکم(۴؍۱۱)