کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 421
ٹھہریے ! چنانچہ میں نے انھیں ناراض کرنا پسند نہ کیا۔ میرے جذبے قدرے تیز و تند تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب گفتگو کی تو وہ مجھ سے زیادہ حلیم اور باوقار ثابت ہوئے۔ اﷲ کی قسم! آپ نے میرے تیار کردہ خطبہ کا ایک بھی پسندیدہ جملہ باقی نہ چھوڑا بلکہ وہ فی البدیہ کہہ سنایا اور اس سے کچھ بہتر ہی کہا ہو گا۔[1]
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب ہمیں خطاب کیا تو ہم لومڑی کی طرح بزدل تھے‘ آپ کی مسلسل حوصلہ افزائی نے ہمیں شیر بنا دیا۔
حضرت زیادہ بن ابی لوگوں میں سب سے زیادہ فصیح و بلیغ خطیب تھے۔ یہاں تک کہ امام شعبی فرماتے ہیں :
’’کوئی بھی انسان ایسا نہیں ہے جس نے بات کی ہو‘ مگر میں اس ڈر سے اس کے خاموش ہونے کی تمنا کیا کرتا تھا کہ کہیں بات بڑھانے میں وہ غلطی نہ کرجائے ؛ سوائے زیادکے۔آپ جتنی بھی لمبی گفتگو کرتے اتنی ہی زیادہ عمدہ ہوا کرتی تھی۔‘‘
لوگوں نے حضرت زیاد کے خطبات لکھے ہوئے ہیں ۔
ایسے ہی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بھی خطیب تھے ؛ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا لوگوں میں سب سے بڑی خطیب تھیں ۔یہاں تک کہ احنف بن قیس نے کہا ہے کہ : ’’ میں نے ابوبکر و عمر اور عثمان و علی رضی اللہ عنہم کے خطبات سنے ؛ لیکن میں مخلوق میں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کسی کا مسکت اور دل اندوز خطاب نہیں سنا۔‘‘ [2]
اسلام سے پہلے بھی اور اسلام کے بعد بھی عربوں میں بہت سارے خطباء اور فصحاء تھے۔ ان میں سے اکثر تعداد نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کوئی خطابت نہیں سیکھی۔ نہ انھوں نے اس باب میں ان سے کچھ استفادہ کیا تھا۔
پھر کسی کی یہ بات کہ’’ آپ فصاحت کا منبع تھے ‘‘سوائے جھوٹ کے اور کیا ہوسکتی ہے؟ اور اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی بھی نہ ہوتا تو بھی آپ لوگوں میں سب سے بڑے خطیب تھے جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک لفظ تک نہیں سیکھا۔
[ قوتِ خطابت اﷲداد ہے]۔ فصاحت منہ پھاڑ کر بولنے ‘اورکلام کی گہرائی میں جانے کا نام نہیں ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر خطباء عرب صحابہ اور دوسرے لوگوں کے کلام میں سجع اور تجنیس کا التزام نہیں ہوا کرتا تھا۔ جو علم البدیع کی مشہور اصطلاحات ہیں ، بلکہ ان کے خطبات میں آمد ہوا کرتی تھی اور یہ سجع کا تکلف نہیں کیا کرتے تھے۔ یہ تکلفات متاخرین شعراء وخطباء اور مراسلین کی ایجاد ہیں ۔ قرآن نے اس جیسی چیزوں کو ہی بیان کیا ہے ‘ فرمایا:
﴿وَ ہُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنَعًا﴾۔[الکہف ۱۰۴]
’’اور وہ گمان کرتے ہیں کہ وہ بہت اچھا کام کررہے ہیں ۔‘‘