کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 420
فصل:....حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فصاحت و بلاغت
[اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ فصاحت کا سرچشمہ تھے۔یہاں تک کہا گیا ہے کہ:’’ آپ کا کلام مخلوقات کے کلام سے بہتر اور کلام خالق سے کم تر تھا۔خطباء نے آپ سے ہی خطابت سیکھی تھی۔‘‘
[جواب]: ہم کہتے ہیں :بلاشبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ صحابہ میں بہت بڑے خطیب تھے۔ علاوہ ازیں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما و ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ بھی فن خطابت میں مہارت رکھتے تھے؛ آپ خطیب رسالت کے لقب سے معروف تھے۔جیساکہ حضرت حسان بن ثابت‘کعب بن مالک اورعبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم آپ کے شعراء تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رو برو اور آپ کی عدم موجودگی دونوں حالات میں خطبہ دیا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب موسم حج میں لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے نکلتے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کیساتھ ہوتے؛اور تقریر کیا کرتے۔آپ اپنے خطاب میں لوگوں کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی دعوت دیا کرتے تھے؛ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہ کر سنتے اور اس طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تائید فرمایا کرتے تھے۔آپ کا کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام سے پہلے تمہید اورمقدمہ کے ہوا کرتا تھا؛ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد [اور لوگوں میں آپ کا تعارف ]مقصودہوتا تھا۔نہ کہ آپ اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے سبقت لیتے۔
جس طرح شماس بن قیس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف خطبہ دیا کرتے ؛ تبھی توآپ کو خطیب رسول کالقب ملا۔
ایسے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں میں بڑے خطیب تھے۔ مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ سے بڑے خطیب تھے جیسا کہ خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کواس بات کا اعتراف تھا۔ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر ایسا بلیغ خطبہ دیا تھا ‘جس سے مسلمانوں کے دل اسلام پر ثابت رہے ۔ حالانکہ اس سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی وجہ سے لوگوں میں سخت اضطراب پایاجاتا تھا۔اس لیے کہ یہ مصیبت ہی اتنی بڑی تھی جس نے انہیں گھیر لیا تھا۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر لوگوں میں خطبہ دینا شروع کردیا۔یہاں تک کہ بعض لوگوں کویہ خیال گزرا کہ آپ ہی اللہ کے رسول ہیں ؛ یہاں تک کہ بعدمیں معلوم ہوگیاکہ بیٹھی ہوئی ہستی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔
آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وفود کی ملاقات کے لیے نکلتے؛اور ان سے خطاب کرتے ؛ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم موجودگی میں بھی خطاب کیا کرتے تھے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی تو آپ نے اس وقت بھی ایک خطبہ دیا۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سقیفہ بنی ساعدہ کے دن بڑا بلیغ خطبہ دیا تھاجس سے تمام حاضرین کو فائدہ ہوا۔حتی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے سقیفہ کے دن بڑا عمدہ خطبہ تیار کیا تھا۔جسے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے پہلے پیش کرنا چاہتا تھا۔میں آپ کے ساتھ کسی حد تک مدارت سے کام لیتا تھا۔ جب میں نے گفتگو کا آغاز کرنا چاہا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا:’’ ذرا