کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 418
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے ساتھی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ سے روایات اخذ کیا کرتے تھے۔ اور ایسے ہی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھی حضرت ابن عمر ‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما اور ان کے علاوہ دیگر صحابہ سے علم حاصل کیا کرتے تھے۔ ایسے ہی اصحاب زید بن ثابت رضی اللہ عنہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کرتے تھے۔[اہل مدینہ نے حضرت عمر؛و اُبی ؛و زید؛ و ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے روایات اخذ کیں ] ان میں سے ہر ایک سے اللہ تعالیٰ نے اپنی مشئیت کے مطابق لوگوں کونفع دیا ۔ ان سب کا ایک دین اور ایک طریقہ پر اتفاق تھا۔وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کیاکرتے اور اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کیا کرتے تھے۔ اور سچے راویوں کے ذریعہ جو بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان تک پہنچتی؛ اسے قبول کرلیتے۔ بعض لوگوں نے کتاب و سنت اور ان کے مدلولات کاعلم سیکھایا اور بعض نے لوگوں کو اس چیز کی طرف بلایا جسے اللہ اور اس کا رسول پسند کرتے تھے اور انہوں نے اس دعوت کو قبول کرلیا تھا۔ ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو اپنے مشائخ کو رب بناتا اور ان سے مدد کا طلب گار ہوتا۔ گویاکہ وہ معبود ہے جس سے سوال کیا جاتا ہے اور اس کی طرف رغبت رکھی جاتی ہے۔ اوراس کی بندگی کی جاتی ہے اور اس پر توکل کیا جاتا ہے۔ اور اس سے زندگی میں اور موت کے بعد مدد طلب کی جاتی ہے ۔ اورنہ ہی اس نبی کی طرح بناتے تھے جس کے ہر حکم میں اس کی اطاعت واجب ہو۔اور جس چیز کو وہ حلال کہہ دے وہ حلال اور جس کو حرام کہہ دے وہ حرام ہے۔یہی ڈگر تو عیسائیوں کی تھی جن کے بارے میں فرمان الٰہی ہے: ﴿اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَ رُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَ مَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوْٓا اِلٰہًا وَّاحِدًا لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ سُبْحٰنَہٗ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ﴾ [التوبۃ۳۱ ] ’’انھوں نے اپنے عالموں اور اپنے درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا اور مسیح ابن مریم کو بھی، حالانکہ انھیں اس کے سوا حکم نہیں دیا گیا تھا کہ ایک معبود کی عبادت کریں ، کوئی معبود نہیں مگر وہی ، وہ اس سے پاک ہے جو وہ شریک بناتے ہیں ۔‘‘ وہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا کرتے تھے؛ برائی اوربدی کے کام پر نہیں ۔ اور ایک دوسرے کو حق بات اورصبر کی تلقین کیا کرتے تھے۔امام اور شیخ ان کے ہاں نماز کے امام کی منزلت پر ہوتا تھا۔ یا حج کے لیے رہنماء کی طرح۔پس مقتدی نمازمیں امام کی اقتداء کرتے ہیں اور اس کی طرح وہ نماز پڑھتے ہیں ‘ اس کی طرف سے نمازنہیں پڑھتے۔ اور اس امام کے ساتھ وہ نمازادا کرتے ہیں جس کاحکم انہیں اللہ اوراس کے رسول نے دیا ہے۔اگر امام جان بوجھ کر یا بھول کر اس اطاعت سے ذرا بھی پھر جائے تو لوگ اس کی اطاعت نہیں کرتے۔ حج کا رہنما لوگوں کوبیت اللہ کے راستہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے تاکہ لوگ خود وہاں پہنچ کر حج کریں ؛ وہ لوگوں کی طرف سے حج نہیں کرتا۔ اوراگر یہ رہنماء کہیں خطأ کا مرتکب ہوجائے تو اس کی اطاعت نہیں کی جاتی۔اگر دو ائمہ یا دوحج رہنماؤں کے مابین اختلاف ہوجائے تودیکھا جاتا ہے کہ حق کس کے ساتھ ہے تاکہ اس کی اتباع کی جائے ؛ اوران کے
[1] اس کتاب کا نام ہے :’’فضائل الحسن البصری : أدبہ و حکمتہ و نشأتہ ....‘‘ یہ کتاب قاہرہ میں چھپ چکی ہے۔