کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 417
’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ اایک قصہ گو کے پاس پہنچے جو کہ قصہ بیان کررہا تھا۔ آپ نے پوچھا : کیا تم ناسخ اور منسوخ بھی جانتے ہو؟ کہنے لگا نہیں ۔فرمایا : خود بھی ہلاک ہوئے اور لوگوں کو بھی ہلاک کردیا ۔
اور فرمایا: زہیر بن عباد الرواسی نے ہم سے حدیث بیان کی ‘ان سے اسد بن حمران نے‘وہ جویبر سے اوروہ ضحاک سے روایت کرتے ہیں :
حضرت علی رضی اللہ عنہ کوفہ کی ایک مسجد میں داخل ہوئے وہاں پر ایک قصہ گو کو پایا جو قصہ بیان کررہا تھا۔ آپ نے پوچھا : کیا تم ناسخ اورمنسوخ بھی جانتے ہو؟ کہنے لگا نہیں ۔فرمایا : کیا مکی اور مدنی بھی جانتے ہو ؟ کہنے لگا نہیں ۔ فرمایا : خود بھی ہلاک ہوئے اور لوگوں کو بھی ہلاک کردیا ۔پھر فرمایا:’’لوگو! جانتے ہو یہ کون ہے ؟
یہ کہتا ہے : لوگو مجھے پہچانو‘لوگو مجھے پہچانو‘لوگو مجھے پہچانو۔‘‘
ابن الجوزی نے حسن بصری کے فضائل و مناقب کے بارے میں ایک مستقل کتاب تصنیف کی ہے۔[1]
ابو عبداللہ محمد بن عبدالواحد المقدسی نے بھی ایک کتاب ان لوگوں کے بارے میں لکھی ہے جن کی صحابہ کرام سے ملاقات ہوئی ہے۔حضرت حسن رحمہ اللہ کے متعلق اخبار تاریخ البخاری ‘ اور اسانید خرقہ کی کتابوں میں موجود ہیں ۔چونکہ ہمارے پاس بھی اس کی کچھ اسناد ثابت ہیں تو میں نے ان کو بیان کردیاتاکہ حق اور باطل واضح ہوجائے۔
خرقہ پوشی کی ابتداء کی حقیقت:
خرقہ کی ایک دوسری اسناد حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی جانب منسوب ہے، مگر وہ منقطع ہے۔ ہمیں قطعی طور پر معلوم ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہ اپنے مریدین کو خرقہ پہناتے تھے نہ ان کے بال تر شوایا کرتے تھے۔ تابعین نے بھی ایسا نہیں کیا تھا۔ یہ فعل مشرق کے بعض متأخر پیروں کاہے۔
حضرت حسن رحمہ اللہ کے واقعات صحیح اور ثابت اسناد کے ساتھ بہت ساری کتابوں میں موجود ہیں ۔ اس کا اندازہ ان واقعات سے بھی ہوسکتا ہے جو ہم نے ذکر کیے ہیں ۔ابن جوزی نے آپ کے حالات و واقعات پر مستقل ایک کتاب لکھی ہے۔اس سے بھی ضعیف سند حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب’’ فتوۃ ‘‘کی ہے۔اس کی سند میں ایسے مجہول راوی پائے جاتے ہیں جن کے سچا یا جھوٹا ہونے کا ہمیں علم نہیں ۔
ہر وہ انسان جسے صحابہ کرام اور تابعین کے احوال کا علم ہے ‘ وہ جانتا ہے کہ صحابہ کرام اور تابعین شلوار نہیں پہنا کرتے تھے اور نہ ہی نمکین چیزیں پیاکرتے تھے۔او رنہ ہی ’’فتوۃ‘‘ نامی کوئی طریقہ کسی کے ساتھ خاص تھا۔لیکن اس میں شبہ نہیں کہ وہ صحابہ کی صحبت میں بیٹھے اور ان کے آداب و علوم سے بہرہ ور ہوئے تھے۔اور ان کے ہاتھوں پر ان کی تربیت ہوئی۔ اوران کی صحبت میں رہے۔ تابعین کے ہر گروہ نے ان صحابہ سے استفادہ کیا جو ان کے شہر میں بودوباش رکھتے تھے۔ اصحاب ابن مسعود رضی اللہ عنہ حضرت عمر ‘ حضرت علی اور حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہم سے روایات لیا کرتے تھے۔اور ایسے ہی
[1] حسن ابن ابی الحسن ابن یسار ابو سعید البصری؛ مولی زید بن ثابت ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری دو سال باقی تھے کہ آپ پیدا ہوئے۔اور ۱۱۰ہجری میں وفات پائی۔حسن بصری نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد تحصیل علم کا آغاز کیا تھاحالانکہ انھوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خطبہ دیتے ہوئے دیکھا تھا۔ابن ابی حاتم نے ان صحابہ کا ذکر کیا ہے جن سے صحیح سند کیساتھ آپ کا سماع ثابت ہے۔ ان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا کوئی ذکر نہیں ۔دیکھیں : الجرح و التعدیل م ۱ص۴۰۔ تذکرۃ الحفاظ ۱؍۷۱۔ میزان الاعتدال۱؍۵۲۷۔
[2] ابن حجر رحمہ اللہ نے ان کا ذکر اپنی کتاب ’’تہذیب التہذیب ‘‘۸؍۲۷۰ میں کیا ہے۔ فضل ابن دکین ان کا لقب ہے‘ جب کہ ان کا نام : عمرو بن حماد بن زہیر بن درہم التیمی ہے ۔ آپ آل ابی طلحہ کے موالی تھے۔