کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 416
کہتے ہیں کہ:’’ حبیب عجمی حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کے تربیت یافتہ تھے؛ یہ درست ہے۔اس لیے کہ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کے کثیر اصحاب و تلامذہ تھے؛مثلاً ایوب سختیانی ؛ یونس بن عبید ؛ عبد اﷲ بن عوف ؛ محمد بن واسع و مالک بن دینار و حبیب عجمی و فرقد سنجی اور بصرہ کے دیگر عابد و زاہد لوگ۔ رحمہم اللہ ۔
صوفیاء کایہ قول کہ: حسن بصری رحمہ اللہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صحبت سے فائدہ اٹھایاتھا۔یہ باتفاق اہل معرفت باطل ہے۔کیونکہ اہل علم کااجماع ہے کہ حضرت حسن رحمہ اللہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہم نشینی کا شرف حاصل نہیں ہوا۔ بلکہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں سے علم حاصل کیا تھا۔آپ نے احنف بن قیس ‘ قیس بن عباد اور دوسرے لوگوں سے استفادہ کیا تھا۔ اہل صحیح نے ایسے ہی روایت کیا ہے۔
حضرت حسن رحمہ اللہ کی پیدائش خلافت عمر رضی اللہ عنہ کے خاتمہ سے دوسال پہلے ہوئی۔جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ قتل ہوئے تو اس وقت آپ مدینہ میں تھے۔آپ کی والدہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی باندی تھی۔جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کردیا گیا تو آپ کو بصرہ لے جایا گیا۔اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کوفہ میں تھے۔ اوراس وقت حضرت حسن بچوں کے ساتھ بچے تھے۔ نہ ہی آپ کی کوئی پہچان تھی اور نہ ہی تذکرہ۔[1]
باقی رہی یہ روایت کہ علی جب بصرہ میں داخل ہوئے تھے تو وہاں جتنے بھی افسانہ گو تھے سب کو نکال دیا صرف حسن کو رہنے دیا ۔ تو اس کے صریح جھوٹ ہونے پر اہل علم کا اتفاق ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب مسجد میں داخل ہوئے تو وہاں پر ایک قصہ گو کو پایا جو قصہ بیان کررہا تھا۔ آپ نے پوچھا : تمہارا نام کیا ہے؟اس نے کہا : ابو یحی۔آپ نے پھر پوچھا : کیا تم ناسخ اورمنسوخ بھی جانتے ہو؟ کہنے لگا نہیں ۔تو آپ نے فرمایا:
’’خود بھی ہلاک ہوئے اور لوگوں کو بھی ہلاک کردیا ۔ بیشک تم صرف ابو ’’اعرفونی‘‘ [یعنی مجھے پہچانو]ہو ۔ پھر آپ نے اس کا کان پکڑ کر اسے مسجد سے باہر نکال دیا۔‘‘
ابوحاتم نے اپنی کتاب ’’ الناسخ والمنسوخ ‘‘میں [یہ واقعہ ایسے ]نقل کیا ہے:
حدثنا الفضل ابن دکین[2]حدثنا سفیان ‘عن ابی حصین ‘ عن ابی عبد الرحمن السلمی ‘ قال:إنتہی عليٌ إلی قاص و ہو یقص؛ فقال: أعلمت الناسخ والمنسوخ ؟ قال :لا۔ قال: ہلکت و أہلکت ۔‘‘