کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 415
ہیں -کتنے دور ہیں جوآپ کی طرف لوگوں کے منسوب کردہ ایک لباس کی وجہ سے آپ کو تقدیم [اور فضیلت ]دیتے ہیں ۔
٭ صحیحین میں مروی ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إِن اللہَ لا ینظر إِلی صورکِم وأموالکِم، وإِنما ینظر إِلی قلوبکِم وأعمالِکم))۔
’’ بیشک اللہ تعالیٰ نہ ہی تمہاری صورتوں کو دیکھتے ہیں اور نہ ہی تمہارے امول کو دیکھتے ہیں ۔ بیشک اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کواور اعمال کو دیکھتے ہیں ۔‘‘[سبق تخریجہ]
دوسری بات: خرقہ جات کی تعداد بہت ہے، مگر مشہور دو خرقے ہیں :
۱۔ایک خرقہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی جانب منسوب ہے۔
۲۔دوسرے خرقہ کی نسبت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف کی جاتی ہے۔
جو خرقہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی جانب منسوب ہے اس کی دو اسنادہیں ایک اُوَیس قرنی تک اوردوسری سند ابو مسلم خولانی تک پہنچتی ہے۔
جس خرقہ کی نسبت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف کی جاتی ہے اس کی اسناد حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تک پہنچتی ہے ۔ متاخرین اسے معروف کرخی رحمہ اللہ تک پہنچاتے ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جنید سری سقطی کی صحبت میں رہے ہیں اور سری سقطی بلا ریب معروف کرخی کی صحبت میں رہے ہیں ۔ اس سے آگے سند کا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے۔ بعض اوقات وہ کہنے لگتے ہیں کہ معروف کرخی رحمہ اللہ علی بن موسیٰ رضا رحمہ اللہ کی صحبت میں رہے تھے۔ یہ بات قطعی طور پر باطل ہے۔ وجہ بطلان یہ ہے کہ معروف کرخی کے حالات نقل کرنے والے مصنفین اس کی کوئی متصل سند ذکر نہیں کرتے۔جیسے ابو نعیم اور ابو الفرج ابن جوزی رحمہ اللہ جس نے معروف کرخی کے فضائل میں کتاب بھی لکھی ہے۔ معروف اپنے شہر کرخ میں منقطع ہوکر رہ گئے تھے۔[آپ کرخ سے باہر کہیں نہیں گئے تھے]۔ جب کہ علی بن موسیٰ خلیفہ مامون کے یہاں خراسان میں سکونت گزین تھے۔جنہیں مامون نے اپنے بعد ولی عہد مقرر کردیا تھا۔اس نے اپنا شعار[مونو]سبز لباس بنا لیا تھا۔پھر اس سے رجوع کرلیا اور دوبارہ کالا لباس پہننا شروع کردیا تھا۔
معروف کرخی [عمر میں علی بن موسیٰ سے بڑے تھے، بنا بریں ] کسی ثقہ راوی سے یہ ثابت نہیں کہ دونوں کبھی باہم ملے یا ایک دوسرے کو دیکھا اور استفادہ کیا۔ معروف رحمہ اللہ علی بن موسیٰ کے دربان بھی نہ تھے کہ انھیں موسٰی کا شرف صحبت حاصل ہوا ہو اور ان کے ہاتھ پر اسلام بھی نہیں لائے تھے۔یہ تمام کہانیاں اور جھوٹ ہیں ۔
اس کی دوسری اسناد یوں بیان کی جاتی ہے کہ: معروف کرخی مشہور بزرگ داؤد طائی کی صحبت میں رہ چکے تھے۔ یہ بھی بے اصل بات ہے ۔آپ کے مشہورومعروف حالات زندگی میں کوئی ایسی بات نہیں ملتی۔[اس لیے کہ ان دونوں حضرات کی ملاقات ثابت نہیں ]۔
خرقہ کی روایت میں یہ بھی کہتے ہیں کہ:’’ داؤد طائی حبیب عجمی سے ملے تھے۔ اس کی بھی کوئی حقیقت نہیں ۔ وہ مزید