کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 414
ہو۔‘‘اس روایت کے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر جھوٹ ہونے پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔ ٭ جیساکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ایک بیوی سے صرف اس لیے نکاح کیا تھا تاکہ اس سے دریافت کریں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ خلوت میں کیا کام کیا کرتے تھے؟ اس نے کہا:’’ میں آپ سے جلی ہوئی کلیجی کے کباب کی خوشبو سونگھا کرتی تھی۔‘‘یہ صریح کذب ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیوی اسماء بنت عمیس کیساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نکاح ہی نہیں کیا ؛ بلکہ ان سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نکاح کیا تھا؛ اور ان کے ساتھ ان کا بیٹا محمد بن ابی بکر بھی تھا؛ جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زیر کفالت تربیت پائی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جتنا اللہ کو منظور تھا اتنی تفسیر صحیح اور ثابت شدہ اسناد کے ساتھ منقول ہے۔ان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام تک نہیں ۔نیز حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے متعدد صحابہ کرام جیسے: حضرت عمر‘ ابو ہریرہ ؛ عبد الرحمن بن عوف ‘ زید بن ثابت ‘ ابی بن کعب‘اسامہ بن زید‘اور دیگر مہاجرین وانصار رضی اللہ عنہم سے استفاد ہ کیا تھا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ سے آپ کی تفسیری روایات بہت کم ہیں ۔اصحاب صحیح نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے آپ کی کوئی روایت نقل نہیں کہ جب کہ حضرت عمر ؛حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت ابوہریرہ اوردیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے آ پ کی روایات منقول ہیں ۔نیزیہ کہ تفسیر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے علاوہ دوسرے صحابہ کرام سے بھی منقول ہے۔ یہ علم حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور دوسرے ایسے صحابہ کرام سے منقول ہیں جنہوں نے یہ علم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ علم حاصل نہیں کیا۔ اور نہ ہی مسلمانوں کے ہاں آپ سے منقول کوئی تفسیر موجود ہے۔کتب احادیث و تفاسیر صحابہ و تابعین کے آثار سے بھری پڑی ہیں ؛ ان میں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات بہت کم ہیں ۔ تفسیری اقوال آپ نے حضرت ابن مسعود اور صحابہ و تابعین کی ایک کثیر جماعت سے اخذ کیے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کردہ تفسیری اقوال کسی کتاب میں موجود نہیں ۔ آپ سے بہت کم تفسیری اقوال نقل کیے گئے ہیں ، ابو عبد الرحمن سلمی نے ’’حقائق التفسیر ‘‘میں جو اقوال جعفر صادق رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں وہ بالکل جھوٹ ہیں ؛ جیسا کہ دوسرے لوگوں نے بھی حضرت جعفر رحمہ اللہ پر جھوٹ بولا ہے۔ہم پہلے یہ بیان کرچکے ہیں ۔ فصل:....حضرت علی رضی اللہ عنہ اور علم تصوف [ اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’علم طریقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے۔تمام صوفیہ خرقہ کو بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔‘‘[انتہی کلام الرافضی] [جواب]:پہلا جواب : ہم کہتے ہیں :تمام اہل معرفت اور حقائق ایمان کے جانکار جوکہ امت میں سچائی و امانت کے ساتھ مشہور ہیں ؛ وہ تمام حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تقدیم پر متفق ہیں ۔اور یہ کہ آپ اس امت میں حقائق ایمان اور احوال عرفان کو سب سے زیادہ جانتے تھے۔توپھر وہ ان حقائق سے -جنہیں شیعہ بھی افضل امور میں سے مانتے