کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 413
کے ساتھ قائم عرض ہوگا یا پھر ان میں سے ایک جز ہوگا۔ پھر یہ واجب عرض میں ممکن کا محتاج ہوگا یا اس میں سے ایک جز کا۔ جیسے حیوانات میں حیوانیت کی منزلت ہوتی ہے۔ یہ خود حیوانات کی خالق نہیں ۔ اور نہ ہی انسانیت انسان کو پیدا کرنے والی ہوتی ہے۔ اس لیے کہ کسی چیز کے جز یا عرض کا اس چیزکا خالق ہونا ممکن نہیں ۔ بلکہ خالق اس سے جدا اور منفصل ہوتا ہے۔ اس لیے کہ جز اور عرض اس(اصل چیز) میں داخل ہوتے ہیں ۔ داخل چیزکے لیے اپنے کل کاخلق اور مبدع ہونے ممکن نہیں ہوتا۔ یہ لوگ جو کچھ اللہ رب العالمین کی صفات بیان کرتے ہیں ان کی موجودگی میں اس کے لیے ممتنع ہے کہ وہ موجودات میں سے کسی ایک چیز کا خالق ہو چہ جائے کہ وہ تمام مخلوقات کا خالق ہو؛ ان امور کی مکمل تفصیل دوسری جگہ پر موجود ہے ۔ یہاں پر مقصود یہ ہے کہ ان ملاحدہ کے عقیدہ کی حقیقت خالق کا انکار کرنا نبوت کی حقیقت معاد اور شرائع کا انکار کرنا ہے۔ اس چیز کو یہ لوگ موالا ت علی کی طرف منسوب کرتے ہیں اور دعوی کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اس عقیدہ پر تھے۔ جیسا کہ قدریہ جہمیہ اور رافضہ دعوی کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے عقیدہ پر تھے۔ اوریہ عقیدہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ماخوذ ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں ۔ یہ تمام باتیں باطل اور حضرت علی رضی اللہ عنہ پر جھوٹا الزام ہیں ۔ فصل:....حضرت علی رضی اللہ عنہ اور علم تفسیر [ اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’علم تفسیر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے۔ اس لیے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما آپ کے شاگرد تھے، ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے ’’ بسم اﷲ‘‘ کی ’’با‘‘ کی تفسیر پوری رات بھر میں بیان کی۔‘‘[انتہی کلام الرافضی] [جواب]:پہلی بات : [ہم کہتے ہیں :یہ صاف جھوٹ ہے]۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کے ثبوت کی سند کہاں ہے؟منقولات سے استدلال کرنے والے پر واجب ہوتا ہے کہ وہ کم ازکم اس سند کا ذکر کرے جس سے منقول کی صحت کا علم ہوسکے۔ وگرنہ کتابوں میں منقولات میں سے جوکچھ خالی ذکر کیا گیا ہوتا ہے ‘ اس سے استدلال کرنا جائز نہیں ؛کیونکہ یہ بات معلوم شدہ ہے کہ ایسی روایات میں بہت ساری جھوٹی روایات بھی ہیں ۔ دوسری بات:....محدثین کرام جانتے ہیں کہ یہ روایت جھوٹ ہے۔ اورحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول یہ اثر آپ پر جھوٹ ہے۔ اس کی کوئی معروف سند نہیں ۔اس قسم کی حکایات بلا اسناد ہی ذکر کی جاتی ہیں ۔اوران کو روایت کرنے والے بھی مجہولات کے دلدادہ لوگ ہوتے ہیں ؛ جو ایسا کلام کرتے ہیں جس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی ۔اور پھر اسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما یا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا کلام قراردیتے ہیں ؛یہ بھی اسی جنس سے ہے۔ [اس قسم کی روایات بیان کرنا جاہل صوفیا کا کام ہے۔جیسے صوفیاء روایت کرتے ہیں کہ]: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ صدیق باتیں کیا کرتے تھے اور میں ان کے پاس یوں بیٹھا رہتا جیسے کوئی حبشی