کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 412
مسمی وجود میں مشترک ہوں اور ان میں سے کوئی ایک دوسرے سے مجرد سلب کے علاوہ کسی وجہ سے ممیز نہ ہو کیونکہ بلاشبہ نفس الامر خالی عدم محض ہونے سے دو مشترکین میں تمیز کا سبب نہیں ہوسکتا ۔ اس لیے کہ عدم محض کوئی بھی چیز نہیں ہے۔ اور جو خود کچھ بھی نہ ہو اس کی وجہ سے نفس الامر میں امتیاز ممکن نہیں ہوتا۔ اور دو موجود چیزوں کے مابین فاصل جو کہ ان دومیں سے کسی ایک کے ساتھ خاص ہوصرف امر ثبوتی یا متضمن بالامر ثبوتی ہی ہوسکتا ہے۔یہ بات ان کے ہاں منطق میں طے شدہ ہے۔ سو پھر اللہ سبحانہ وتعالی رب کائنات کا وجود وجود ممکنات کے ساتھ مسمی وجود میں کیسے مماثل ہوسکتا ہے؟ اورعدم محض کے علاوہ کسی امر ثبوتی کی بنا پر مخلوقات سے ممتاز نہیں ہوسکتا۔ بلکہ اس تقدیر کی بنا پر جس بھی موجود کو مقدر مانا جائے وہ اس موجود سے زیادہ کامل ہوگا۔ اس لیے کہ وہ موجود ان کے نزدیک اپنے وجود میں امر ثبوتی کے ساتھ مختص ہے۔ جب کہ ان کے نزدیک یہ بھی ہے کہ واجب الوجود مسمی الوجود میں مماثلت کے باوجود محض امر عدمی کے ساتھ ہی مختص ہوسکتا ہے۔یہ قول ہر ممکن الوجود کی واجب الوجود کے ساتھ مماثلت فی الوجود کو مستلزم ہے۔ اور ان سے اس کا امتیاز صرف امور ثبوتیہ کے سلب کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ جب کہ کمال تووجود میں ہوتا ہے عدم میں نہیں ہوتا۔ پھر عدم محض میں توکوئی کمال ہے ہی نہیں ۔ سو اس بنا پر وہ ممکنات سے صرف تمام کمالات کے سلب کی وجہ سے ہی ممتاز ہوگا جب کہ ممکنات اس سے تمام کمالات کے اثبات کی بنا پر ممتاز ہونگی ۔یہ ممکنات کی کمال اور وجود میں تعظیم کی آخری حد ہوگی جس میں واجب الوجود نقص اور عدم سے موصوف ہوگا۔ نیز یہ وجود جو کہ اپنے غیر سے صرف عدمی امور کی بنا پر ممتاز ہوتا ہے خارج میں اس کا وجود ناممکن ہوگا۔ بلکہ ذہن کے بغیر اس کا امکان بھی نہیں رہے گا۔ اس لیے کہ جب یہ ساری موجودات کے ساتھ مسمی وجود میں شریک ہے تو یہ کلی ہوا۔ اور وجود کلی صرف ذہن میں ہوسکتا ہے خارج میں نہیں ۔ نیز یہ کہ محض عدمی امور خارج میں ان کے ثبوت کو واجب نہیں کرتے۔ اس لیے کہ جو کچھ ذہن میں ہوتا ہے وہ خارجی حقائق کے سلب ہونے سے سلب خارج کا زیادہ حق دار تھا اگرچہ خارج میں یہ ممکن بھی ہوتاتو پھر اس وقت کیا عالم ہوگا جب کہ یہ ممتنع ہو۔ پس جب کلی صرف ذہن میں ہی ہوتا ہے۔اور عدمی قیود اس کو کلی ہونے سے خارج نہیں کرسکتی تو ثابت ہوا کہ خارج میں بھی یہ نہ ہو ۔مزید برآں کہ جوکچھ خارج میں ہے وہ صرف معین ہی ہوسکتا ہے۔ اس کا اپنا وجود ہے جو اس کے ساتھ خاص ہے۔ جو اس طرح نہ ہو وہ صرف ذہن میں ہی ہوسکتاہے۔ پس ان تین وجوہات اور دیگر وجوہ کی بنا پر ثابت ہوا کہ اس نے جو کچھ واجب الوجود کے متعلق ذکر کیا ہے وہ صرف ذہن میں متحقق ہوسکتا ہے خارج میں نہیں ۔ یہ ان لوگوں کا قول ہے جو اسے امور عدمیہ کے ساتھ مقید کرتے ہیں ۔ ان کا ایک تیسرا قول بھی ہے:وجود مطلق شرط اطلاق کے بغیر جسے یہ کلی طبیعی کا نام دیتے ہیں خارج میں اس کا وجود صرف معین طور پر ہی ہوسکتا ہے۔ یہ قول بھی اپنے سے پہلے دو اقوال کی جنس سے ہے۔ ان میں سے بعض خیال کرتے ہیں کہ خارج میں وہ ثابت ہوتاہے۔ اوروہ معینات کا ایک جز ہے۔پس اس صورت میں ہرمبدع واجب الوجود یا تو مخلوقات