کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 411
حیی وقیوم کے لیے بھی بولا جاتا ہے جسے کبھی بھی موت نہیں آئے گی۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی مخلوقات کے ان ہی اسماء سے بہت بلند و بالا ہیں ۔جیسا کہ الملک؛ السمیع البصیر العلیم؛ الخبیر اور اس طرح کے دیگر اسماء کا شمار بھی اسی باب میں ہوتا ہے۔ جب یہ کہا جائے کہ: تمام عام الفاظ اور تمام عام معانی-خواہ وہ متماثل ہوں یا متفاضل- بیشک جن کے افراد آپس میں ایک دوسرے کے شریک یا موافق ہوتے ہیں ۔ اس میں کہیں بھی یہ نہیں آیا کہ خارج میں عام کا کوئی ایسا معنی ہے جو کہ عام ہے۔ اس لیے کہ لفظ عام اور اس کا معنی خود مشترک ہیں ۔بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ بعض معین موجودات اس عام میں مشترک ہیں ۔ اور یہ عام صرف عالم کے علم میں ہوتا ہے۔جیسا کہ لفظ عام صرف بولنے والے کے الفاظ میں عام ہوتا ہے۔اور عام خط صرف کاتب کے خط میں ہی عام ہوسکتا ہے۔اس کے عام ہونے سے مراد بیرونی افراد کے لیے اس کا شامل ہونا ہے۔ نہ یہ کہ بذات خود موجود چیز خود اس کے ساتھ بھی متعین ہوگی اور خود ہی اس کے ساتھ بھی متعین ہوگی۔ اس لیے کہ بلاریب یہ بات حس اور عقل کے خلاف ہے۔ یہاں پر مقصود یہ ہے کہ ابن سینا کا مذہب یہ ہے کہ اپنی ذات کے لیے واجب الوجود ہی تمام ثبوتی امور کے سلب کے ساتھ مقید ہوتا ہے۔سلب النقیضین یا امساک عن النقیضین کے ساتھ مقید کرنے سے نہیں ہوتا۔جیسا کہ قرامطہ میں سے سجستانی اور اس کے امثال نے کیا ہے۔ابن سینا نے ان کے قول :وجود مقید کو یوں تعبیر کیا ہے کہ حقائق یا ماہیات میں سے کوئی بھی چیز سے سامنا نہیں کرسکتا۔ اس لیے کہ ان کا اعتقاد ہے کہ وجود ممکنات سے سامنا کرسکتا ہے۔یہی ان کا قول ہے کہ واجب کا وجود خود اس کی ماہیت ہے۔ جمہور اہل سنت یہی کہتے ہیں ۔لیکن ان دونوں کے مابین فرق یہ ہے کہ ان کے نزدیک وجود مطلق جو کہ سلب ماہیات کے ساتھ مشروط ہوتو اس کی کوئی ماہیت وجود مقید سلبی کے علاوہ نہیں ہوتی۔ جب کہ انبیاء علیہم السلام اوران کے ماننے والے تمام عقلاء جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی حقیقت اسی کے ساتھ خاص ہے اور موجود بھی ہے؛ مگر مخلوقات میں سے کسی بھی حقیقت کے متماثل نہیں ۔معتزلہ اور ان سے موافقت رکھنے والے ایک گروہ کا کہنا ہے :’’یہ حقیقت اپنی اصل حقیقت پر زائد وجود کے ساتھ موجود ہے۔‘‘ جب کہ جمہور کہتے ہیں : خارج میں مخلوق حقائق کی بھی وہی حقیقت ہے جو کہ موجود کی حقیقت ہے۔ان دونوں کے مابین فرق یہاں سے پیدا ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک کو ذہنی قراردیا جائے اور دوسرے کو خارجی۔جب حقیقت یا ماہیت کو اس چیز کا نام قراردیا جائے جو ذہن میں موجود ہے۔یہ خارج میں موجود چیز سے ہٹ کرہوتی ہے۔ اور جب یہ کہا جائے کہ’’الوجود الذہنی‘‘ تواس سے مراد ذہنی ماہیت ہوتی ہے۔ اورجب کہاجائے :خارجی ماہیت تو اس سے مراد خارجی وجود ہوتاہے۔اگر جب مخلوق میں ایسا جائز ہے تو خالق میں بالاولی جائز ہے۔ ابن سینا کے مذہب کا فاسد ہونا مکمل تصورکے بعد عقلی ضرورت کے تحت معلوم شدہ ہے۔ اس لیے کہ جب دو مودجود