کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 409
اسم وجود ان دونوں اقسام کو شامل ہے۔ لیکن اشعری ان احوال کی نفی کرتا ہے۔ وہ کہتاہے : عموم و خصوص کئی ایک اقوال کی طرف لوٹتا ہے۔ اس کا مقصود یہ ہے کہ خارج میں کلی عام کا کوئی معنی نہیں اس کا مقصود یہ نہیں ذہن میں کلی عام کا معنی قائم نہیں ہوسکتا۔
ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ ہر چیز کا وجود وہ بذات خود اس کی موجودہ حقیقت ہوتی ہے۔ بیشک یہی قول اشتراک لفظی کا ہے۔ اس لیے کہ ان کا کہناہے کہ:جب اگر ہم وجود کو متساوی ومتواطی(ہم پلہ وہم معنی) الفاظ سے عام قراردیدیں یہ ان الفاظِ متافضلہ کے لیے عام کردیں جنہیں متشککہ کہا جاتا ہے اور ہم نے کہاہے کہ : وجود واجب اور ممکن اور قدیم و محدث میں منقسم ہے تو یہ انواع مسمی وجود میں مشترک ہوتے ہیں ۔ یہی کلی مطلق ہے۔ ان میں سے ہر ایک کیلیے اپنی خصوصیت کے ساتھ دوسرے سے ممتاز(و جدا)ہونا ضروری ہے اسے حقیقت کہتے ہیں ۔پس اس سے لازم آتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے لیے وجود کے علاوہ حقیقت بھی ہوتی ہے۔
یہ ایس غلط ہے جس میں کئی لوگ گمراہ ہوگئے جیسے امام رازی اور اس کے امثال۔
اس کا بیان تین طرح سے ہے :پہلی وجہ :یہ کہاجائے گا کہ لفظ موجود بھی لفظ حقیقت اور لفظ ماہیت اور لفظ ذات اورنفس کی طرح ہے۔ جب آپ کہتے ہیں کہ وجود واجب و ممکن یاقدیم اور محدث میں تقسیم ہوتا ہے۔ یہ تمہارے اس قول کی منزلت پرہے کہ:حقیقت بھی واجب اورممکن یا قدیم اور محدث میں تقسیم ہوتی ہے۔ یا پھر آپ یوں کہہ لیں کہ ذات بھی ان ہی اقسام میں تقسیم ہوتی ہے۔اور ماہیت کی بھی تقسیم ایسے ہی ہوتی ہے۔ اور اس طرح کے دیگر عام اسما کا بھی یہی حال ہے۔ اور جیسا کہ یہ کہہ دیں : چیز واجب اور ممکن اورقدیم اور حادث میں تقسیم ہوتی ہے۔
پس اس صورت میں جب آپ یہ کہیں گے کہ یہ دونوں وجود یا وجوب میں مشترک ہیں تو ان میں سے ایک اپنی ماہیت یا حقیقت کے اعتبار سے دوسرے سے جداگانہ ہوگا تواسکی منزلت بھی یہی ہوگی؛گویاکہ یوں کہا جائے: یہ دونوں ماہیت اورحقیقت میں مشترک ہیں ۔ اور ان میں سے ایک دوسرے وجوب یا وجود کی وجہ سے جداگانہ حیثیت رکھتا ہے۔ اور اگر آپ یہ کہیں کہ یہ دونوں وجود عام کلی میں مشترک ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی اپنی خاص حقیقت ہے۔
تو اس کے جواب میں کہا جائے گاکہ : ایسے ہی یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ :بیشک یہ دونوں اپنی عام کلی حقیقت میں مشترک ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنے خاص وجود کے ساتھ جدا اور ممتاز ہے۔ پس اس صورت میں جس چیز کو آپ کلی عام قراردیتے ہوں جیساکہ جنس و عرض عام اور جس چیز کو آپ خاص ممیز جزئی قراردیتے ہو۔ جیسا کہ فصل اور خاصیت۔لیکن آپ نے عموم وخصوص میں دو متساوی چیزوں کا ارادہ کیا ہے۔اور ایک کو آپ نے حال عموم میں مقدر مانا ہے اوردوسری کوحال خصوص میں ۔ یہ سب آپ کی بنائی ہوئی تقدیریں اور قیاسات ہیں ۔ وگرنہ ان میں سے ہر ایک میں اسے ہی تقدیر ممکن ہے جیسے کہ دوسری چیز میں آپ نے مقرر کی ہے۔اور نفس امر میں ان میں سے ہر عموم و خصوص میں اور مشترک اور ممیز ہونے میں دوسری چیز کے برابر ہے۔ تو اس صورت میں تمہارے بنائے ہوئے جنس اورعرض عام اور