کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 408
ساتھ خاص ہے۔ اور اس کا وجود اس کے ساتھ خاص ہے۔ لیکن جو مخلوق کی صفات ہیں وہ کبھی دوسرے مخلوق کی صفات کے مماثل ہوسکتی ہیں ۔اور ان میں سے کسی ایک مثل کے لیے وہ امور جائز ہوتے ہیں جو دوسرے کے لیے جائز ہیں ۔
جب کہ رب سبحانہ و تعالیٰ کی صفات میں کوئی چیز اس کے مماثل نہیں ہوسکتی۔ بلکہ اللہ اور مخلوق کی صفات میں دو فرق اور تباین ہے وہ مخلوق کی صفات میں تباین و فرق سے بہت بڑا ہے۔ جب کہ اس میں معنی مشترک کلی عام جیسا کہ ہم نے ذکر کیا-یہ کلی طور پر صرف ذہن میں ہوسکتا ہے۔
جب دو موصوف میں اس لحاظ سے موافقت و مشارکت اور مشابہت کی ایک نوع پائی جاتی ہے اوراس میں کوئی محذور(ممانعت)والی بات نہیں ۔اس لیے کہ اس قدر مشترک کی وجہ سے وجوب یا جواز یا امتناع لازم نہیں آتا۔ پس اللہ سبحانہ و تعالی بھی اس صفت کے ساتھ متصف ہے۔ پس وہ موجود اپنے موجود ہونے کے اعتبار سے ہے ایسے ہی علیم اور حیی کی صفات کا معاملہ بھی ہے۔ سو جتنا بھی کہا جائے کہ اس سے وجوب یا جواز یا امتناع لازم آتا ہے۔ سو اللہ تعالیٰ جن صفات سے موصوف ہے وہ مخلوق کی صفات موجود و حیات اور علم کے خلاف ہیں ۔ اس لیے کہ مخلوق کے لیے جو امتناع جواز اور وجوب اور استحالہ کی صفات بیان کی جاتی ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے لیے بیان نہیں کی جاسکتیں ۔ اور نہ ہی جو صفات وجوب و جواز اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہیں وہ مخلوقات کے لیے بیان کی جاسکتی ہیں ۔جو انسان اس بات کوسمجھ لیتا ہے اس کے بہت سارے اشکالات ختم ہوجاتے ہیں ۔ بہت سارے اذکیا جو علوم الکلیہ اور معارف الٰہیہ میں نظر رکھتے ہیں وہ اسی چیز کے قائل ہیں ۔ واجب الوجود میں ان کے اقوال میں سے ایک قول یہ بھی ہے۔ یہ اطلاق نفی و اثبات کی شرط کیساتھ مطلق ہے۔ اور تعطیل و الحاد سے زیادہ کامل و اکمل ہے۔
دوسرا قول ابن سینا اور اس کے متبعین کا ہے کہ: بیشک وہ وجود قیود سلبیہ کیساتھ مقید ہے ثبوتیہ کے ساتھ نہیں ۔ اور کبھی اسے یوں تعبیر کیا جاتا ہے کہ وہ وجود مقید ہے ۔ کبھی ماہیات میں سے کوئی بھی چیز اس کا معارضہ نہیں کرسکتی۔یہ تعبیر ابن رازی وغیرہ کی ہے۔ان عبارات کی بنیاد ان کا یہ عقیدہ ہے کہ :وجودکا ماہیات ممکنہ سے اعراض ہوسکتا ہے۔ امام احمد کے اصحاب میں سے بعض مناظرین و متکلمین اور کچھ دوسرے لوگوں کا بھی یہی عقیدہ ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ:(ایسا نہیں )بلکہ خارجی وجود کی خارج میں ایک ثابت حقیقت ہوتی ہے۔ یہ دو چیزیں نہیں ۔اہل اثبات میں سے جمہور کا یہی قول ہے۔اوردوسرا قول مذاہب اربعہ میں سے اور دوسرے مناظرین کا ہے جو اثبات صفات کے قائل ہیں ۔ لیکن شہرستانی؛ رازی اور آمدی وغیرہ رحمہم اللہ کا خیال یہ ہے کہ اس قول کا قائل کہنا چاہتا ہے کہ: لفظ وجود اشتراک لفظی کے لیے بنایا گیا ہے۔ انہوں نے یہ کلام اشعری وغیرہ سے نقل کیا ہے ۔ جب کہ یہ ان کے متعلق غلط بیانی ہے۔ اس لیے کہ اولین و آخرین میں سے جمہور کایہی قول ہے۔سوائے ایک چھوٹے سے طائفہ کے۔ ان میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو یہ کہتا ہو کہ لفظ وجود اشتراک لفظی کے لیے بنایا گیا ہے ۔یہ اشعری اور اس کے اصحاب کا قول نہیں ۔ بلکہ ان کا اتفاق ہے کہ وجود کی دو قسمیں ہیں : قدیم اورمحدث۔