کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 401
منحصر ہوگا۔‘‘
ان کے نزدیک تو عقل تمام جہان کی پروردگار اور رب عالم ہے۔اور وہی تمام چیزوں کو بغیر کسی مثال سابق کے پیدا کرنے والی ہے۔یہی پہلی علت ہے ۔اعراض اربعہ اس کے ساتھ خاص نہیں ۔ بلکہ عقل ان کے نزدیک تمام جواہر:علویہ و سفلیہ حسیہ اور عقلیہ کی مبدع ہے۔
جبکہ مسلمانوں کی زبان میں :عقل وہ عرض ہے جو دوسری چیز کیساتھ قائم ہے۔ یا پھر عقل قوت نفس کانام ہے۔
عقل کا مصدر: عقل یعقِل عقلاًہے؛ جبکہ عاقل کو ان کی زبان میں عقل نہیں کہا جاسکتا۔ ان(زنادقہ)کی اصطلاح میں عقل ایسا جوہر ہے جو بذات خود قائم ہے۔ ہم نے اس نکتہ پر تفصیل سے کلام کیا ہے۔ اورمعقول ومنقول میں ان کی واضح کی ہے۔ یہ لوگ عند التحقیق مفارقات میں سب سے پہلے جس چیزکوثابت کرتے ہیں وہ اعیان و اذہان میں نفس ناطقہ کا وجود ہے۔اور اس کی بعض صفات بیان کرنے میں بھی خطا کے مرتکب ہوئے ہیں ۔
ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ: عالم علت ازلیہ قدیمہ واجب الوجود سے معلول ہے۔ اوربلاریب اس عالم کے لوازم بھی ہیں ۔لیکن ان کے عقیدہ کی حقیقت یہ ہے کہ :یہ ایک علت غایت ہے۔ اورافلاک کی حرکت اس سے مشابہت کے لیے ارادی وشوقی حرکت ہے۔اوریہی شوق اس کا محرک ہے۔ جیساکہ محبوب اپنے محب کی مشا بہت میں حرکت میں آتا ہے تاکہ اسے محب سے تشبیہ حاصل ہوجائے۔ ایسی چیز کا اس کے تصور و ارادہ اور حرکت کے مطابق محدث ہونا واجب نہیں ہوتا۔حرکت فلک میں ان کا عقیدہ قدریہ کے افعال حیوانات میں عقیدہ کی جنس سے ہے۔ لیکن یہ لوگ کہتے ہیں : فلک کی حرکت ہی حوادث کا سبب ہوتی ہے۔ ان کے اس قول کی حقیقت یہ ہے کہ:اصل میں یہ تمام حوادث بغیر کسی محدث کے وجود میں آتے ہیں ۔اور اللہ تعالیٰ کچھ بھی نہیں کرتے اور ہر مقام کے لیے اس کے مناسب مقال بھی ہوتا ہے۔
ان لوگوں نے وجود اور اس کے لواحق میں علم باطن کوعلم اعلی اور فلسفہ اولی قرار دیا ہے۔ اوروجود کو جوہر و عرض میں تقسیم کیا ہے۔ پھر اعراض کو نو اقسام میں تقسیم کیا ہے۔ اور ان میں سے بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو انہیں صرف پانچ اقسام قراردیتے ہیں ۔اور بعض نے صرف تین اقسام تسلیم کی ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے صحیح اعداد و شمار پر کوئی دلیل موجود نہیں ۔ نیز انہوں نے جواہر کو بھی ان پانچ انواع میں تقسیم کیا ہے:
1۔عقل 2۔ نفس 3۔ مادہ 4۔ صورت 5۔جسم
واجب الوجود کوکبھی کبھی جوہر کا نام دیتے ہیں ۔یہ ان کی قدما کا عقیدہ ہے۔ جیسے ارسطو وغیرہ۔ اور کبھی یہ نام نہیں بھی دیتے جیسا کہ ابن سینا کا عقیدہ ہے۔ جیسا کہ ابن سینا کا عقیدہ ہے۔ ان کے قدما اپنے دل میں عقلی امور میں تصور کرتے تو پھر خارج انہیں ثابت بھی خیال کرنے لگتے۔ جیسا کہ فیثاغورس اور افلاطون کی جماعت سینقل کیا گیا ہے۔ ان لوگوں نے خارج میں کچھ مجرد اعداد کو ثابت مانا ہے۔ اور اول الذکر لوگوں نے افلاطونی امثال کو ثابت کیا ہے۔ یہ اعیان سے خالی کلیات ہیں اورایسے ہی انہوں نے مجرد مادہ کو ثابت مانا ہے۔ اسے ہیولی اولی کہتے ہیں ۔ اورپھرمجرد مدت کو ثابت مانا ہے۔یہ عقلی
[1] ابن جوزی نے اپنی کتاب ’’الموضوعات‘‘۱؍۱۷۴ پر اس روایت کو مختلف اسانید سے ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے:’’ یہ روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند کیساتھ ثابت نہیں ہوتی۔یحیٰ بن معین فرماتے ہیں : ’’فضل انتہائی برا انسان تھا۔‘‘ اورابن حبان فرماتے ہیں : ’’ حفص بن عمرو جھوٹی احادیث روایت کیا کرتا تھا۔ اس کی روایات سے استدلال کرنا حلال نہیں ہے۔ جب کہ سیف نامی راوی کے جھوٹا ہونے پر سب کا اجماع ہے۔ پھر انہوں نے ۱؍۱۷۵ پر ایک دوسری سند سے یہ روایت نقل کرتے ہوئے کہا ہے: یہ بھی صحیح نہیں ہے۔ اور پھر امام دار قطنی کا قول نقل کیا ہے ؛ آپ فرماتے ہیں : عقل پر چار لوگوں نے کتابیں لکھی ہیں ۔ان میں سے پہلا انسان مسیرہ بن عبدربہ ہے۔ پھراسی سے مواد چرا کر اور اس کے ساتھ اسناد ملاکر داؤد بن محبر نے تالیف کی۔ پھر اس سے عبد العزیز بن ابی رجاء نے مواد چرایا اور اس کے ساتھ ایک دوسری قسم کی اسناد ملا کر روایت کیا ۔ پھر یہی کام سلیمان بن عیسی سجزی نے کیا۔ دیکھیں : المقاصد الحسنۃ للسخاوی ص۱۱۸۔ الموضوعات للقاری ۳۷۔