کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 40
طرح سے جانتے ہیں کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن میں سے کوئی ایک بھی دمشق تشریف نہیں لے گئی۔لیکن شام میں حضرت اسماء بنت یزید بن السکن الانصاریہ رضی اللہ عنہا تھیں ؛ اہل شام انہیں ام سلمہ کہا کرتے تھے۔ اس سے جاہل لوگوں نے یہ گمان کرلیا کہ یہ ام سلمہ ام المؤمنین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا انتقال مدینہ طیبہ میں ہوا۔ اویس قرنی تابعی شام گئے ہی نہیں ۔ [ یا عوام کا یہ نظریہ کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جامع دمشق کے باب القبہ میں احادیث روایت کیا کرتی تھیں ]۔ اسی طرح یہ افواہ بھی بے بنیاد ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نجف میں مدفون ہیں ، حالانکہ اہل علم سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ و معاویہ رضی اللہ عنہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کواپنے اپنے شہر میں قصر الامارت میں دفن کیا گیا تھا کیونکہ اس بات کا خطرہ دامن گیر تھا کہ خوارج ان کی قبریں نہ کھود ڈالیں ۔ [1]
اس لیے کہ خوارج نے ان تینوں حضرات کو قتل کرنے کرنے کے لیے قسمیں اٹھالی تھیں ۔پس اس کے نتیجہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا گیا؛ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ زخمی ہوئے ۔جبکہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اپنی جگہ نماز پڑھانے کے لیے خارجہ نامی ایک آدمی کو مقرر کیا تھا؛ جب قاتل نے حملہ کردیا تو اسے معلوم ہوا کہ یہ حضرت عمرو بن العاص نہیں ‘ بلکہ خارجہ ہے ؛ تواس نے کہا : ’’میں تو عمرو کو قتل کرنا چاہتا تھا اور اللہ تعالیٰ کا ارادہ خارجہ کا تھا۔‘‘ یہ بات لوگوں میں ضرب المثل بن گئی۔
اس طرح کی بہت ساری چیزیں ہیں جو جہلاء کے خیالات پر مبنی ہیں ۔اور منقولات کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ
[1] کوفہ کا قصر الامارت جس میں سیدنا علی مدفون ہیں جامع کوفہ سے جانب قبلہ واقع ہے۔ مشہور شیعہ مورخ لوط بن یحییٰ کہتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ جامع کوفہ کے ایک کونہ اور قصر الامارت کے صحن میں ابواب کندہ کے قریب دفن کیے گئے تھے۔ شیعہ نے تیسری صدی ہجری میں سیدنا علی اور سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہم کے ایک مدت بعد یہ دعویٰ کیا کہ آپ نجف میں مدفون ہیں ، حقیقت شناس لوگوں کا قول ہے کہ نجف میں جو قبر سیدنا علی کی جانب منسوب ہے دراصل وہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی قبر ہے۔دمشق کا قصر الامارت جہاں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ مدفون ہیں اس کو الخضراء کہتے ہیں ، یہ مسجد دمشق کی اس دیوار سے متصل ہے جو جانب قبلہ واقع ہے، اس کی مشرقی جانب جیرون نامی حوض ہے۔ مغرب میں باب البرید اور جنوب میں قصر اسعد پاشا واقع ہے۔دمشق کے معمر لوگ اپنے آباؤ اجداد سے نقل کرتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اس دیوار کے نیچے مدفون ہیں جو جامع دمشق اور الدار الخضراء کے درمیان واقع ہے دولت عباسیہ کے عہد اقبال میں متقدمین نے جامع دمشق کی قبلہ والی دیوار پر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی قبر کے نزدیک ایک کتبہ لگا دیا تھا جس پر لکھا تھا:’’یہ اﷲکے نبی ہود علیہ السلام کی قبر ہے۔‘‘
اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ حاسد لوگ آپ کی قبر نہ کھود ڈالیں ۔الدار الخضراء میں ایک اور قبر بھی تھی جو آج کل ’’ البزوریہ‘‘ نامی بازار میں واقع ہے۔ غالباً یہ معاویہ بن یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کی قبر ہے۔سیدناعمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے عید الفطر ۴۳ھ میں وفات پائی آپ کے بیٹے عبد اﷲ نے نماز جنازہ پڑھائی، مجھے تادم تحریر اس بات کی کوئی دلیل معلوم نہیں ہو سکی کہ آپ دارالامارۃ میں مدفون ہیں ۔ مشہور یہ ہے کہ آپ وادی المعظم میں گھاٹی کے دروازہ کے نزدیک مدفون ہیں ، صحابہ کا نقطہ نظریہ تھا کہ آدمی اعمال سے زندہ جاوید ہوتاہے، پکی قبر سے نہیں ،یہی وجہ ہے کہ فراعنہ و جبابرہ کی طرح وہ اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ صلحاء اور نامور فاتحین صحابہ کی قبروں پر مقبرے بنائے جائیں اور ان پر عالی شان عمارتیں تعمیر کی جائیں ۔