کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 399
والے باطنیہ ہی میں سے تھے۔ [سنان ان کا داعی تھا]۔
[یہ بظاہر شیعہ مگرباطن میں ملحد و زندیق ہوتے ہیں ]۔ یہ شیعہ کی راہ سے مسلمانوں میں داخل ہوئے اور دین اسلام میں سب سے بڑا بگاڑ پیدا کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ باطنیہ حد درجہ جاہل خواہش پرست اور دین اسلام سے بیگانہ ہوتے ہیں ۔یہی وجہ تھی کہ انھوں نے اپنے داعیوں کو نصیحت کی تھی کہ تشیع کے دروازے سے مسلمانوں کے یہاں داخل ہوں ۔ یہ شیعہ کے اکاذیب و اہواء سے فائدہ اٹھاتے اوروقت یاجگہ کی مناسب سے ان پر خاطر خواہ اضافہ کیا کرتے تھے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انھوں نے مسلمانوں کو جو نقصان پہنچایا وہ بت پرست اورعیسائی بھی نہیں پہنچا سکتے تھے۔حقیقت میں ان کا دین فرعون کا دین ہے جو کہ یہود و نصاری اور بت پرستوں کے دین سے بھی برا ہے۔
ان کی دعوت کی ابتداء شیعیت سے ہوتی ہے اورانتہاء اسلام کے مسخ کرنے پر۔بلکہ انسان کو تمام ملتوں سے نکال دیتے ہیں ۔جو انسان اسلام کے احوال اور اس میں لوگوں کے مذاہب ومسالک کے بارے میں سے کچھ جانتا ہو وہ لازمی طور پر ان لوگوں کے بارے میں بھی کچھ کچھ نہ ضرورجانتا ہی ہے۔
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی تصدیق ہے جوکہ صحیح بخاری ومسلم میں مذکورہے۔ [حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ]: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’تم لوگ اپنے سے پہلے لوگوں کی(ایسی زبردست پیروی کرو گے)حتی کہ( ایک ایک بالشت اور ایک ایک گز پر)یعنی ذرا سا بھی فرق نہ ہوگا۔حتی کہ اگر وہ لوگ کسی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی داخل ہو گے ہم نے عرض کیا :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کیا یہود و نصاری مراد ہیں ؟آپ نے فرمایا:’’نہیں تو پھر اور کون مراد ہو سکتا ہے۔‘‘ [1]
ایک دوسری متفق علیہ روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ میری امت ایک ایک بالشت اور ایک ایک گز پرسابقہ امتوں کی راہوں پر چلے گی ۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا :
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا اہل فارس اوراہل روم کی راہوں پر ؟ توآپ نے فرمایا: ’’ کیا ان کے علاوہ کوئی دوسرے لوگ بھی ہیں ۔‘‘ [سبق تخریجہ]
یہ بات بعینہ ان لوگوں میں ہے جو اپنے آپ کو شیعیت کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ بلاریب اسماعیلیہ نے اپنا مذہب اہل فارس سے لیا ہے ۔جن کے عقیدہ کے دواصول ہیں : نور اورظلمت۔انکے علاوہ دیگر واہیات باتیں بھی ہیں ۔ اور کچھ چیزیں اہل روم نصاری کے مذاہب سے لی ہیں ۔ اورکچھ نصرانیت سے پہلے اہل یونان کے مذہب کی چیزیں ہیں ؛ جیسا کہ نفس اور عقل کا عقیدہ اوراس طرح کے دوسرے امور۔ انہوں نے ان سب چیزوں کو آپس میں ملاکر اس کے لیے ایک نیا اصطلاحی نام رکھا: ’’السابق والتالی۔‘‘[یعنی گزشتہ اور آنے والا]۔ اور پھر اسے لوح و قلم قرار دیا۔
[1] اصحاب الموت چند ملحد شخص تھے۔ ان میں آخری شخص رکن الدین تھا۔ انھوں نے ۴۷۳ھ سے ۶۵۴ھ تک قلعہ الموت میں اسماعیلی فرقہ کی بنیاد رکھی اور اس کی نشرو اشاعت میں لگے رہے،یہ قلعہ طہران و نیشا پور کے درمیان واقع تھا۔ اسماعیلی ملاحدہ کے ہاں دو اور قلعے بھی تھے۔ ان کا نام کرد کوہ۔ میمون ذر تھا۔ حاکم الموت کو شیخ الجبل کہا کرتے تھے، ہلاکو خاں نے ۶۵۴ھ میں اسماعیلیہ کا خاتمہ کردیا تھا۔ ملحد اسماعیلیہ کا آخری شیخ الجبل اٹلی کے مشہور سیاح مارکوپولو کے زمانہ تک بقید حیات تھا۔ مار کوپولو نے شیخ الجبل کی جنت اور اس کے جرائم کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔’’مواقف حاسمۃ‘‘ص : ۲۲۱۔ ۲۲۳۔نیز ملاحدہ کی تفصیلات کے لیے دیکھیے ’’الحوادث الجامع لابن الفوطی‘‘ص: ۳۱۲ ۔ ۳۱۳، نیز ’’مختصر الدول لابن العبری‘‘ (ص:۴۶۲)، و عمدۃ الطالب (ص:۲۱۱)، تاریخ العراق بین احتلالین (۱؍۱۵۰۔۱۵۴)۔