کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 397
علی رضی اللہ عنہ ان سے بری ہیں ۔ ایسے ہی حضرت جعفر صادق پر اتنے جھوٹ باندھے گئے ہیں جن کی حقیقت کو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ یہاں تک کہ آپ کی طرف علم نجوم کے احکام ‘رعود ‘ بروق اور قرعہ منسوب کیے گئے ہیں جو حقیقت میں پانسہ بازی کی ہی ایک قسم ہے۔ آپ کی طرف ’’منافع سورالقرآ ن ‘‘ نامی کتاب بھی منسوب کی گئی ہے۔ اوران کے علاوہ بھی دیگر بہت ساری چیزیں ہیں جن کے بارے میں علماء جانتے ہیں کہ حضرت جعفر رحمہ اللہ اس سے بری ہیں ۔ یہاں تک کہ آپ کی طرف مختلف انواع کی تفسیر بھی منسوب کی گئی ہے جو کہ باطنیہ کے طریقہ پر ہے۔ جیسا کہ ابو عبد الرحمن سلمی نے اپنی کتاب ’’حقائق التفسیر‘‘ میں ذکر کیا ہے۔ اور اس نے وہاں پر اس تفسیر کے کچھ قطعات بھی بطور نمونہ ذکر کیے ہیں ۔یہ حقیقت میں کلمات قرآن میں تحریف؛اور اللہ تعالیٰ کی مراد کو تبدیل کرناہے۔ آپ کے علوم کی معرفت رکھنے والا ہر انسان جانتا ہے کہ آپ ان اقوال و عقائداورکتاب اللہ کی تفسیر میں جھوٹ سے بری تھے۔ او رایسے ہی بعض لوگوں نے آپ کی طرف ایک اور کتاب بھی منسوب کی ہے جسے ’’رسائل إخوان الکدر‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ کتاب حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ کے دو سو سال بعد سے زیادہ عرصہ بعد لکھی گئی ہے۔ جعفر صادق کا انتقال سن ایک سو اڑتالیس ہجری میں ہوا ہے۔ او ریہ کتاب ’’عبیدی باطنی اسماعیلی ‘‘دور حکومت میں اس وقت لکھی گئی جب یہ لوگ مصر پر غالب آگئے اور قاہرہ شہر آباد کیا۔ یہ ایسے لوگوں کی تصنیف ہے کہ فلسفہ و شریعت اور شیعیت کو ایک ہی جگہ جمع کرنا چاہتے تھے۔ جیسا کہ ان عبیدیوں کا مسلک تھا۔ جن کا دعوی تھا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد ہیں ۔ نسب کے ماہرین اہل علم جانتے ہیں کہ یہ نسب باطل[اور جھوٹ] ہے۔ جب کہ ان کا دادا ظاہری اور باطنی طور پر یہودی تھا؛ان کا سوتیلادادا مجوس میں سے تھا۔ اس نے ایک یہودیہ عورت سے شادی کرلی تھی۔یہ ان کا یہودی دادا اس مجوسی کے پاس لے پالک تھا۔ ان کی نسبت باہلہ کی طرف تھی۔ حالانکہ یہ لوگ باہلہ کے موالین میں سے تھے۔ پھر انہوں نے یہ دعوی کیا کہ وہ محمد بن اسماعیل بن جعفر کی اولاد میں سے ہے۔ اسماعیلیہ کو اسی کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ ان کا دعوی ہے کہ حق ان کے ساتھ ہے اثنا عشریہ کے ساتھ نہیں ۔اس لیے کہ اثنا عشریہ موسیٰ بن جعفر کی امامت کے دعویدار ہیں ۔ جب کہ یہ لوگ اسماعیل بن جعفر کا کہتے ہیں ۔ ان کے ائمہ باطن میں زندیق اورملحدین ہیں جو کہ غالیہ فرقہ میں سے سب سے برے لوگ ہیں ۔اثنا عشریہ کی جنس میں سے نہیں ہیں ۔لیکن انہیں اس فاسد مذہب اور نسبت پر لگانے والے اثنا عشریہ اور ان کے امثال کے کرتوت ہیں ۔ان لوگوں نے اس فرقہ پر جھوٹ بولے تو جواب میں انہوں نے وہی جھوٹ بلکہ اس سے زیادہ ان پر بہتان گھڑے ۔ اثنا عشریہ نے ان کو ملحد کہا تو انہوں نے جواب میں انہیں جہمیہ اورقدریہ وغیرہ کہا۔ جب یہ اسماعیلیہ و نصیریہ ملاحدہ او ران کے امثال حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف اپنی نسبت کرتے ہیں ‘حالانکہ وہ طرقیہ عشریہ اور دوسرے لوگوں کی طرح ہیں ؛ تو پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف ایسی باتیں بھی منسوب کرنے لگے جن سے اللہ تعالیٰ نے ان کو منزہ و مبرا رکھا ہے۔[اہل بیت پر جو جھوٹ باندھا گیا ہے وہ بیان سے باہر ہے]۔یہاں تک کہ شیعہ چور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک خط میں ان کولوگوں کے اموال چوری کی اجازت دی ہے۔ جس طرح
[1] ابو یحییٰ زکریا بن یحییٰ بن عبدالرحمن بن محمد بن الضبي البصری الساجي اپنے زمانہ میں بصرہ کے سب سے بڑے محدث تھے۔حافظ اور ثقہ تھے۔ ۲۲۰ہجری میں پیدا ہوئے ۳۰۷ہجری میں وفات پائی ۔ الاعلام ۳؍۸۱۔ [2] البخاری ۔ کتاب الجہاد۔ باب فکاک الاسیر(ح:۳۰۴۷)،مسلم، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ (ح:۱۳۷۰)۔الترمذي کتاب الدیات ‘باب: ماجاء لا یقتل مسلم بکافر۔