کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 396
اختیار کیا اور اپنے آپ کو اہل سنت و محدثین کے مذہب کی طرف منسوب کرنے لگے جیسے احمد بن حنبل اور ان کے امثال رحمہم اللہ ؛ اور اسی عقیدہ کی مناسبت سے لوگوں میں مشہور بھی ہوئے۔آپ کے مذہب میں سے جس قدر عقیدہ کی تعریف کی گئی ہے ‘ وہ وہی ہے جو اہل سنت محدثین کے موافق ہے ؛ جیساکہ جامع جملے ۔اورجس قدر عقیدہ کی مذمت کی گئی ہے ؛ وہ جو مخالفین محدثین اہل سنت معتزلہ ‘ مرجئہ اور جہمیہ و قدریہ کے مذہب کے موافق ہے۔ آپ نے بصرہ میں زکریا بن یحییٰ ساجی[1] سے حدیث و سنت کا علم حاصل کرنا شروع کیا تھا۔پھر بغداد میں امام احمد حنبل رحمہ اللہ کے اصحاب اور دوسرے لوگوں سے علم حاصل کیا۔ امام اشعری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’’ مقالات الاسلامیین‘‘ میں لکھا ہے کہ وہ اہل سنت والجماعت محدثین کے مشرب و مسلک پر ہیں اور کہا ہے : ’’ہم نے جتنے بھی اعتقادات ذکر کیے ہیں ہم بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں اور اس مذہب پر عمل پیرا ہیں ۔‘‘ یہ مذہب جہمیہ اور قدریہ کے مذہب سے بہت دور ہے۔ [ معجون مرکب شیعہ مذہب]: جب کہ رافضہ شیعہ-جیسا کہ ابن مطہر اوراس کے امثال متاخرین امامیہ -کا مذہب ایک اچھا خاصہ معجون مرکب ہے۔ انکار صفات باری میں انھوں نے جہمیہ کا مذہب اختیار کیاہے۔ افعال العباد کے مسئلہ میں وہ قدریہ کے پیرو ہیں ۔ امامت و تفضیل کے مسائل میں وہ روافض کے زاویہ نگاہ کے متبع ہیں ۔ اس سے یہ حقیقت اجاگر ہوتی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کردہ علم کلام آپ پر صاف جھوٹ ہے؛مزید براں اس میں مدح کاکوئی عنصرشامل نہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر عظیم ترین افتراء تویہ ہے کہ قرامطہ و اسماعیلیہ اپنے عقائد و افکار کوآپ کی جانب منسوب کرتے اور کہتے ہیں کہ آپ کو باطنی علم دیا گیا تھا؛ جو کہ علم ظاہر کے خلاف تھا۔صحیح سند کے ساتھ یہ بات ثابت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:’’اس ذات کی قسم جس نے نباتات کو اگایا اور سب مخلوقات کو پیدا کیا! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایسا کوئی عہد نہیں لیا جو باقی لوگوں سے نہ لیا ہو۔سوائے اس کے جو کچھ آپ نے فرمایا تھا وہ میرے اس صحیفہ میں درج ہے۔اس کتاب میں :دیت‘قیدیوں کی رہائی کامسئلہ تھا اوریہ کہ کافر کے بدلہ میں مسلمان کوقتل نہیں کیا جائے گا؛ البتہ اﷲتعالیٰ اگر اپنے کسی بندے کو کتاب اﷲ کا فہم عطا کردے تو وہ ایک الگ بات ہے۔‘‘[2] اب لوگوں میں سے بعض ’’الحوادث ‘‘کو آپ کی طرف منسوب کرتے ہیں ‘اور بعض دوسرے’’ جفر ‘‘کو۔کچھ دوسرے ’’بطاقہ ‘‘ اور دیگر علوم کو آپ کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ جن کے بارے میں یہ بات یقینی علم کیساتھ معلوم ہے کہ حضرت
[1] حسن بن محمد بن حنفیہ نے سب سے پہلے مسئلہ ارجاء پر کتاب لکھ کر قدریہ وغیرہ کا رد کیا ہے۔ [سزکین م۱؍ج۴؍ص ۱۵]۔ [2] ابو ہاشم عبداللہ بن محمدبن علی بن ابی طالب۔ ابن حجر رحمہ اللہ تہذیب التہذیب ۶؍۱۶ پر آپ کے حالات زندگی تحریر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : امام زہری فرماتے ہیں :’’ عبد اللہ اور حسن دونوں محمد بن علی [المعروف ابن حنفیہ ] کے بیٹے ہیں ۔ان دونوں میں سے حسن زیادہ ثقہ راوی تھا۔ ابو اسامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ ان میں سے ایک مرجئی تھا او ردوسرا شیعہ ۔‘‘ اور ابن حجر نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ : حضرت زبیر فرماتے ہیں :’’ ابو ہاشم شیعوں کا ساتھی تھا۔‘‘ اور یہ بھی کہاہے کہ : ’’ عبداللہ سبائیت کی روایات جمع کیا کرتا تھا۔‘‘