کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 395
امام جعفر صادق رحمہ اللہ سے جب پوچھا گیا کہ: قرآن خالق ہے یا مخلوق ؟ تو انھوں نے فرمایا:
’’وہ نہ ہی خالق ہے اور نہ ہی مخلوق؛ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ وہ اﷲ کا کلام ہے۔‘‘
[واصل بن عطاء اور محمد بن حنفیہ کی شاگردی]
رہا رافضی کا یہ قول کہ : ’’ واصل بن عطاء نے ابو ہاشم بن محمد بن الحنفیہ سے علم حاصل کیا تھا۔‘‘
[اس کا جواب یہ ہے کہ]: اس میں کوئی شک نہیں کہ حسن بن محمد بن حنفیہ [1]نے معتزلہ کے قول کے برعکس ’’ارجاء ‘‘ کے مسئلہ پر ایک کتاب تالیف کی تھی۔کئی اہل علم نے اس کتاب کا ذکر کیا ہے۔ یہ اس معتزلی مذہب سے متناقض ہے ؛ جس کا اظہار واصل بن عطاء کیا کرتا تھا۔اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ :اس نے ابو ہاشم سے علم حاصل کیا تھا۔[2]
اس ابو ہاشم کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس نے ایک کتاب تصنیف کی تھی جس پر انکار کیا گیا ؛نہ ہی اس کے بھائیوں نے اس پر موافقت کی اور نہ ہی اہل بیت نے۔اورنہ ہی اس نے اپنے والد سے علم حاصل کیا تھا۔
خواہ کچھ بھی ہو‘ وہ کتاب جو حسن کی طرف منسوب کی گئی ہے وہ اس کتاب کے متناقض ہے جو ابو ہاشم کی طرف منسوب کی گئی ہے۔ یہ بھی کہاگیا ہے کہ :اس نے اس کتاب سے رجوع کرلیا تھا۔ اور یہ بات ممتنع ہے کہ ان دونوں نے یہ متناقض علوم اپنے والد محمدبن الحنفیہ سے حاصل کیے ہوں ۔ محمد کی طرف ان دومیں سے ایک کتاب کی نسب زیادہ مناسب ہے۔ پس اس سے قطعی طور پر یہ باطل ثابت ہوگیا محمد بن حنفیہ ایک ہی وقت میں دو مختلف عقائد کے قائل نہیں ہوسکتے۔ بلکہ یہ بات دو ٹوک اور قطعی یقینی ہے کہ محمد مرجئہ کے عقیدہ سے برأت کے ساتھ ساتھ معتزلہ کے عقیدہ سے بھی اس سے بڑھ کر بری ہیں ۔اور ان کے والدحضرت علی رضی اللہ عنہ مرجئہ اورمعتزلہ سے اس سے بڑھ کر بری ہیں ۔
جب کہ ابوالحسن اشعری رحمہ اللہ کے بارے میں کوئی شک نہیں کہ وہ علی جبائی کے شاگرد تھے؛ مگر انھوں نے جبائی کو چھوڑ دیا تھا ؛ اور اس کے مذہب سے جملہ طور پر رجوع کرلیا تھا۔ اگرچہ آپ کے ہاں ان کے مذہب کے اصولوں کی کچھ بقایا رہ گئی تھیں ۔لیکن آپ نے نفی صفات کے مسئلہ میں ان کی مخالفت کی ؛ اور ابن کلاب کے مذہب پر گامزن ہوگئے۔ اور قدر‘ ایمان اوراسماء و احکام کے مسائل میں ان کی مخالفت کی؛اورحسین بن نجار اورضرار بن عمرو کے رد سے بڑھ کر ان کارد کیا؛ حالانکہ یہ دونوں حضرات اس باب میں جمہور فقہاء اور جمہور محدثین کی طرح متوسط شمار کیے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ اس مسئلہ میں جہم کے عقیدہ کی طرف مائل ہوگئے ‘ مگر وعید کے مسئلہ پر ان کی مخالفت کی۔ پھر اہل سنت و الجماعت کا مذہب
[1] ابن طاہر بغدادی اپنی کتاب ’’ اصول الدین ‘‘ص ۲۹۰ میں فرماتے ہیں :واصل بن عطاء ‘ عمرو بن عبید اور نظام اور اکثر قدریہ کہتے ہیں کہ : ہم انفرادی طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور انکے اصحاب سے محبت کرتے ہیں ؛ اور طلحہ و زبیر اوران کے متبعین سے بھی انفرادی طور پر ولاء کااظہار کرتے ہیں ۔اور اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کیساتھ انکی جماعت کا ایک آدمی گواہی دے تو اس کی گواہی مان لیں گے ‘اورایسے ہی طلحہ و زبیر کے ساتھ بھی اگر ان کی جماعت کا کوئی آدمی گواہی دیدے تو ہم مان لیں گے۔ لیکن اگر طلحہ اور علی رضی اللہ عنہما اکیلے باگلے کی ایک بالی پر بھی گواہی دیں تو تب بھی اسے نہیں مانیں گے۔ اس لیے کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک فاسق ہے۔ فاسق دائمی جہنمی ہوتا ہے ‘وہ نہ ہی مومن ہے او رنہ ہی کافر۔دیکھیں : ابو الحسن أشعری کی کتاب : مقالات اسلامیین ۲؍۱۴۵۔
[2] علامہ اشعری نے اپنی کتاب ’’ مقالات الاسلامیین ‘‘ ۱؍۱۰۶میں مسئلہ تجسیم میں روافض کے عقائد ذکر کیے ہیں اورانہیں چھ اقسام میں تقسیم کیا ہے۔ پھر ان کے بارے میں کہاہے : ’’ توحید میں یہ لوگ معتزلہ اور خوارج کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔یہ ان کے متأخرین شیعہ کا عقیدہ ہے۔ جب کہ ان کے اولین تشبیہ کا عقیدہ رکھتے تھے۔ جب کہ اعمال العباد کے بارے میں ایک گروہ ہشام بن حکم کا عقیدہ رکھتا ہے کہ انسان کی افعال ایک طرح سے اختیاری ہیں اور ایک طرح سے اضطراری ۔ اور دوسرا گروہ جہمیہ کا عقیدہ رکھتا ہے کہ : اعمال میں کوئی جبر نہیں ؛ اور نہ ہی تفویض ہے جیسے کہ معتزلہ کا عقیدہ ہے ۔جب کہ تیسرے گروہ کا عقیدہ ہے کہ اعمال اللہ تعالیٰ کی مخلوق نہیں ہیں ۔یہ لوگ معتزلی بھی ہیں اور امامت کا عقیدہ بھی رکھتے ہیں ۔