کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 394
گزر ہوں وہ خود حادث ہے۔اور اس پر ان حوادث کی بنیاد رکھتے ہیں جن کی کوئی انتہاء ہی نہیں ۔ بخلاف ازیں پہلی مرتبہ اس کا اظہار پہلی صدی کے بعد جعد بن درہم اور جہم بن صفوان کی طرف سے ہوا۔ پھر عمرو بن عبید اور[ واصل بن عطاء]ابوہذیل العلاف اور ان کے امثال نے اس میں حصہ لیا۔عمرو بن عبید اور واصل بن عطاء ان دونوں نے جب انفاذ و عیدمیں علم کلام کا اظہار کیا کرتے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ جو انسان جہنم میں داخل ہوگیا تو پھر وہ وہاں سے کبھی بھی نہیں نکلے گا۔ اور تقدیر کا انکار کرنے لگے۔ان سب باتوں سے اللہ تعالیٰ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پاک رکھا تھا۔ جو خطبات حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ثابت ہیں ، ان میں معتزلہ کے اصول خمسہ کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔اس بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جو بھی باتیں منقول ہیں ‘ وہ سب آپ پر جھوٹ ہیں ۔ متقدمین معتزلہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تعظیم نہیں کیا کرتے تھے، بلکہ ان میں بعض لوگ ایسے بھی تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عدالت و ثقاہت کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے تھے۔ جنگ جمل کے لڑنے والوں کے بارے میں وہ کہا کرتے تھے: ’’فریقین میں سے ایک فاسق ہے، مگر متعین طور پر یہ نہیں معلوم کہ وہ کون ہے۔‘‘یا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں یا پھر حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما ۔اور جب ان میں سے کوئی ایک گواہی دے تو اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی ۔ جب کہ اکیلے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گواہی کے بارے میں ان کے دو قول ہیں ۔ یہ قول عمرو بن عبید اور ان جیسے دوسرے معتزلہ کے ہاں معروف ہے۔‘‘[1] متأخرین شیعہ کے برعکس تمام متقدمین شیعہ ہاشمی اور دوسرے لوگ ؛صفات الٰہی اور مسئلہ تقدیر کے قائل تھے۔ متاخرین شیعہ نے صراحت کے ساتھ تجسیم کے عقیدہ کا اظہار کیا تھا؛ اور اس بارے میں ان سے انتہائی برے اقوال نقل کیے گئے ہیں ۔جب کہ ان کا دعوی ہے کہ انہوں نے یہ عقیدہ اہل بیت سے اخذ کیا ہے۔[2]