کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 393
اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے استفادہ کیا تھا۔اور قضایا میں آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اقوال تلاش کرتے تھے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بھی آپ سے سوال کیا کرتے تھے۔
اسی لیے کہا جاتا ہے کہ موطا امام مالک کے اصول امام ربیعہ کی سند سے سعید ابن مسیب سے اور انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے لیے ہیں ۔خلیفہ رشید نے امام مالک رحمہ اللہ سے کہا تھا: ’’ آپ نے موطا میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بہت زیادہ روایات لی ہیں اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بہت کم ہیں ۔‘‘توآپ نے جواب میں فرمایا: ’’اے امیر المؤمنین آپ ان دونوں میں سے زیادہ صاحب ورع تھے ۔‘‘ [یعنی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ]۔
یہ موطا پکار پکار کر بتا رہا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کے متعلق اس قسم کی من گھڑت روایات کھلا ہوا جھوٹ ہیں ۔
[ابن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت علی کی شاگردی رضی اللہ عنہ ]:
[اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے علم حاصل کیا تھا۔‘‘
[جواب] :یہ بات بھی غلط ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں ۔ اس لیے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بہت کم روایات نقل کی ہیں ۔ ان کی اکثر روایات حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور زید رضی اللہ عنہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما اکثر امور میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے قول کے مطابق فتویٰ دیا کرتے تھے اوربہت سے مسائل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف تھے۔ جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس زنادقہ کی ایک جماعت لائی گئی۔آپ نے انہیں جلادیا۔ جب یہ بات حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ تک پہنچی تو آپ نے فرمایا: ’’ اگر ان کی جگہ میں ہوتا تو میں کبھی بھی انہیں نہ جلاتا۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے عذاب دینے سے منع فرمایا ہے۔میں انہیں صرف قتل کردیتا ۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’ جو اپنے دین کو بدل ڈالے ‘ اسے قتل کر ڈالو ۔‘‘ جب اس بات کی خبر حضرت علی رضی اللہ عنہ تک پہنچی تو آپ نے فرمایا : ’’ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے لیے افسوس ہے ۔‘‘ [تخریج گزر چکی ہے]
فصل:....حضرت علی رضی اللہ عنہ اور علم کلام
[اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ علم الکلام کی اصل و اساس ہیں ۔ آپ کے خطبات سے لوگوں نے علم الکلام حاصل کیا۔ لہٰذا لوگ اس فن میں آپ کے شاگرد ہیں ۔‘‘[انتہی کلام الرافضی]
[جواب]:ہم کہتے ہیں : یہ جھوٹ ہے؛ علاوہ ازیں اس میں فخر کی کوئی بات نہیں ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس علم الکلام سے پاک رکھا تھا جوکہ کتاب و سنت کی تصریحات کے منافی ہے۔ صحابہ و تابعین کے زمانہ میں ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جو حدوثِ اجسام سے حدوث عالم پر استدلال کرتا ہو۔ نیز حدوثِ اجسام کو اعراض اور حرکت و سکون کی دلیل سے ثابت کرتا اور کہتا ہو کہ اجسام اس کو مستلزم ہیں ۔اس سے علیحدہ نہیں ہوسکتے۔اورجس سے پہلے کوئی حوادث نہ