کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 392
اورسعید بن مسیب رحمہما اللہ وغیرہ سے بھی علم حاصل کیا تھا۔ ایسے ہی حضرت حسن رضی اللہ عنہ اپنے والد کے علاوہ دوسرے صحابہ اور تابعین تک سے علم حاصل کیا کرتے تھے۔یہ آپ کا علم و دین تھا ۔ علماء کرام رحمہم اللہ نے حضرت علی بن حسین رحمہ اللہ کی بہت تعریف کی ہے اور بڑے مناقب بیان کیے ہیں ۔ امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ میں نے علی بن حسین رحمہ اللہ سے افضل مدینہ میں کسی کو نہیں پایا۔‘‘ یحی بن سعید انصاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’مدینہ میں سب سے افضل ہاشمی میں نے آپ کو ہی دیکھا ہے ۔‘‘ حماد بن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’مدینہ میں میں نے سب سے افضل ہاشمی آپ کو ہی پایا۔آپ فرمایا کرتے تھے: اے لوگو ! ہم سے اسلام کی محبت کرو۔تم ہم سے محبت کا مسلسل دعوی کرتے رہے یہاں تک کہ تمہاری محبت ہمارے لیے عار ہو گئی۔‘‘یہ کلام محمد بن سعد نے طبقات میں نقل کیا ہے ۔[۵؍۲۱۴]۔ ابن سعد لکھتے ہیں : [علماء نے ] کہا ہے:’’علی بن حسین رحمہ اللہ ثقہ اورمامون تھے؛ کثرت احادیث والے‘ رفیع الشان اور عالی منزلت کے انسان تھے۔ آپ نے شیبہ بن نعامہ سے روایت نقل کی ہے۔آپ فرماتے ہیں : علی بن حسین رحمہ اللہ بخل کیا کرتے تھے۔جب آپ کا انتقال ہوا تو پتہ چلاکہ چپکے سے اہل مدینہ کے ایک سو گھرانوں کی کفالت کیا کرتے تھے۔ فصل:....[حضرت امام مالک رحمہ اللہ اورکلام ِ رافضی پر ردّ] [اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ امام مالک سے منقول ہے کہ انھوں نے ربیعہ سے پڑھا۔ ربیعہ نے عکرمہ سے عکرمہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اور ابن عباس حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شاگرد تھے۔‘‘[انتہی کلام الرافضی] [جواب]:ہم کہتے ہیں : یہ جھوٹ ہے۔ ربیعہ نے عکرمہ سے کچھ نہیں پڑھا تھا؛بلکہ امام مالک نے اپنی کتاب میں عکرمہ سے ایک دو روایات کے علاوہ کوئی بھی روایت نقل نہیں کی۔اور نہ ہی اپنی کتاب میں عکرمہ کا کوئی ذکر کیا ہے۔اس لیے کہ آپ کو یہ بات پتہ چلی تھی کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما اور سعید بن مسیب رحمہ اللہ کوعکرمہ پرکچھ کلام تھا؛ اس لیے آپ نے ان سے روایت نقل کرنا ترک کردیا تھا۔ایسے ہی امام مسلم نے بھی ان سے کوئی روایت نقل نہیں کی۔ہاں یہ بات ضرور ہے کہ عکرمہ سعید بن مسیب رحمہ اللہ اوران کے امثال فقہاء اہل مدینہ کے شاگرد ہیں ۔ سعید رحمہ اللہ نے حضرت عمر، زیدبن ثابت
[1] امام جعفر صادق کے بارے میں شیعہ نے جو جھوٹ تصنیف کیے ہیں ، ان میں سے مضحکہ خیز جھوٹ وہ ہے جسے شیعہ کے فخر العلماء محمد بن محمد نعمان المفید نے اپنی کتاب ’’الارشادفی تاریخ حجج اللہ علی العباد‘‘ مطبوعہ ایران،ص:۱۰۴، پر جعفر بن محمد کے ترجمہ میں لکھا ہے کہ ’’امام جعفر صادق نے فرمایا: میرے پاس سیدنا موسیٰ کی تختیاں ہیں ، جن پر تورات مکتوب تھی۔ میرے پاس عصائے موسیٰ اور خاتم سلیمان بھی ہے۔ نیز میرے پاس وہ طشتری بھی ہے جس میں موسیٰ علیہ السلام قربانی دیا کرتے تھے۔‘‘ ہم پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ امام جعفر فی الواقع صادق تھے، مگر شیعہ آپ پر جھوٹ باندھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین ان کی روایات پر اعتماد نہیں کرتے۔ آج کل کے لوگ امام بخاری پر طعن کرتے ہیں کہ وہ اہل بیت سے بہت تھوڑی روایات نقل کرتے ہیں کیا لوگ یہ چاہتے ہیں کہ امام بخاری اس بات پر مہر تصدیق ثبت کریں کہ عصائے موسیٰ اور قربانی کی طشتری فی الواقع امام جعفر کے پاس موجود تھی۔ اﷲ تعالیٰ ایسے عقائد سے بچائے۔‘‘