کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 391
نصرت کی ۔آپ اکثر طور پر اہل حجاز اور محدثین کے مذہب کی تائید کیا کرتے تھے۔ پھر عیسی بن ابان نے امام شافعی رحمہ اللہ کے رد پر ایک کتاب لکھی ؛ اور ابن سریج نے عیسی بن ابان پر رد لکھا۔ ایسے ہی امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے امام شافعی رحمہ اللہ سے تعلیم نہیں پائی۔لیکن آپ کی مجلس میں بیٹھا کرتے تھے۔جس طرح کہ امام شافعی رحمہ اللہ محمد بن حسن رحمہ اللہ کی مجلس میں بیٹھا کرتے تھے۔ ان میں سے ہر ایک نے دوسرے سے استفادہ بھی کیا ہے ۔ امام شافعی اور احمد بن حنبل رحمہما اللہ اصول میں متفق تھے۔یہ اتفاق محمد بن حسن رحمہ اللہ کے ساتھ اتفاق سے زیادہ تھا۔ امام شافعی احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے دس سال سے زیادہ بڑے تھے۔ امام شافعی پہلی بار ۱۸۰ھ؁کے کچھ عرصہ بعد امام ابو یوسف کی موت کے بعد اور محمد بن حسن کی زندگی میں بغداد تشریف لائے ۔پھر دوسری بار ۱۹۰ھ؁ کے بعد تشریف لائے۔ اس بار آمد کے موقع پر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے ملاقات ہوئی۔ بہر کیف ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک نے بھی امام جعفر رحمہ اللہ سے مسائل و اصول اخذ نہیں کیے تھے۔ مانا کہ انھوں نے امام جعفر رحمہ اللہ سے چند روایات نقل کی ہیں تو اس سے کئی گنا روایات انھوں نے غیر اہل بیت راویوں سے بھی اخذ کی ہیں ۔ امام زہری رحمہ اللہ اور امام جعفر رحمہ اللہ کی مرویات کے درمیان کوئی نسبت ہی نہیں ؛ نہ ہی قوت حدیث کے اعتبار سے اور نہ ہی کثرت تعداد کے اعتبار سے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کو بعض احادیث میں اس وقت شک گزرا جب انہیں یہ بات پتہ چلی کہ یحی بن سعید القطان کو ان روایات میں کلام ہے؛ پھر آپ نے وہ احادیث اپنی کتاب ’’صحیح بخاری‘‘ میں نقل نہیں کیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ امام جعفر صادق پر جس قدر بہتان طرازی کی گئی ہے اور کسی پر نہیں کی گئی۔ تاہم ان کا دامن ان اتہامات سے پاک ہے۔ [1]چنانچہ شیعہ نے یہ علوم امام جعفر صادق کی طرف منسوب کیے ہیں : (۱) علم البطاقہ۔(۲) علم الہفت۔ (۳) الجدول ۔(۴) اختلاج الاعضاء۔(۵) علم الجفر۔(۶) منافع القرآن۔(۷) الرعود والبروق۔(۸) احکام النجوم۔(۹) القرعہ۔(۱۰) استقسام بالازلام۔(۱۱) ملاحم۔کلام علی الحوادث؛ اور تفسیر قرآن میں کئی قسم کے اشارات ؛ اور خواب میں سورت پڑھنے کی تعبیر ۔ یہ تمام کتابیں آپ کی طرف جھوٹ سے منسوب کی گئی ہیں ۔ امام جعفر الصادق رحمہ اللہ نے اپنے والد اور دوسرے لوگوں سے اکتساب فیض کیا تھا ؛جیسا کہ پہلے گزر چکا۔ آپ کے والد نے علی بن الحسین سے علم حاصل کیا تھا۔ علی بن حسین نے اپنے والد حسین سے اور ان سے زیادہ دوسرے علماء کرام سے اکتساب فیض کیا تھا۔ اس لیے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ سن ۶۱ھ؁ میں شہید کردیئے گئے تھے ؛ اس وقت حضرت علی رحمہ اللہ چھوٹے تھے۔ جب آپ واپس مدینہ تشریف لائے تو وہاں کے علماء کرام سے علم حاصل کیا ۔ نیز آپ نے امہات المؤمنین حضرت عائشہ ؛ام سلمہ ‘صفیہ ؛ اور حضرت ابن عباس؛ مسور بن مخرمہ ؛ اورابو رافع مولی النبی ؛ رضی اللہ عنہم ؛ مروان بن الحکم
[1] اہل بیت کی مرویات میں چونکہ جھوٹ کا عمل دخل ہو گیا تھا، اس لیے روایت حدیث میں عدالت و ضبط کا لحاظ رکھنے والے محدثین اہل بیت علماء سے روایات اخذ کرنے میں احتیاط کیا کرتے تھے۔ اہل بیت کے متعصب شیعہ اپنے علماء سے جھوٹی روایات بیان کرنے میں عام طور سے بدنام تھے۔ جو احادیث اس عیب سے پاک ہوں ان کے ذکر و بیان میں محدثین کوئی باک نہیں سمجھتے تھے۔ اسماء الرجال کے فن کا طالب جو راویان حدیث کے کوائف و احوال معلوم کرنے کا خواہاں ہوں کہ وہ علم حدیث کے علماء و ائمہ کے عدل و انصاف سے بخوبی آگاہ ہے۔ اس مسئلہ کی تحقیق کے لیے دیکھیے مقالہ جس کا عنوان ہے: ’’تسامح اہل السنۃ فی الروایۃ عمن یخالفونھم فی العقیدۃ‘‘(مجلۃ الازہر، مجلد: ۲۴، ص: ۳۰۶۔ ۳۱۲)