کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 389
فصل:....[فقہاء کی مراجعت او رحضرت علی رضی اللہ عنہ ] [اشکال]:شیعہ لکھتا ہے:’’فقہ میں سب فقہاء حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی] [جواب]: ہم کہتے ہیں :’’ یہ صاف جھوٹ ہے، ائمہ اربعہ اور دیگر فقہاء میں سے کوئی بھی فقہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف رجوع نہیں کرتا تھا۔ جہاں تک امام مالک رحمہ اللہ کا تعلق ہے آپ اہل مدینہ سے اخذ کرتے ہیں اور اہل مدینہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول سے احتجاج نہیں کرتے، بلکہ وہ فقہاء سبعہ کے اکتساب فیض کرتے تھے جیسے: حضرت عمر رضی اللہ عنہ و زید و ابن عمر رضی اللہ عنہم اور ا ن کے امثال۔ [ان کے اقوال اہل مدینہ کے ہاں سند کا درجہ رکھتے ہیں ]۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے آغاز کار میں اہل مکہ مثلاً اصحاب ابن جریج رحمہ اللہ ؛سعید بن سالم القداح ؛ مسلم بن خالد الزنجی وغیرہ سے استفادہ کیا۔ اور ابن جریج رحمہ اللہ اصحاب ابن عباس رضی اللہ عنہما جیسے عطاء رحمہ اللہ اور دوسرے اصحاب سے اخذ و استفادہ کیا کرتے تھے۔ابن عباس رضی اللہ عنہ مجتہد مطلق تھے۔اور جب آپ صحابہ کرام میں سے کسی کے قول کے مطابق فتوی دیتے تو وہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے اقوال ہوا کرتے تھے؛ نہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول کے مطابق ۔بلکہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بہت ساری باتوں پر رد کیا کرتے تھے۔ پھر امام شافعی رحمہ اللہ نے مدینہ پہنچ کر امام مالک رحمہ اللہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور بعد میں اہل عراق کی تصانیف سے فائدہ اٹھایا۔پھر مذہب ِ محدثین کی تعلیم پائی اور اسے اپنے لیے اختیار کرلیا ۔جب کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے استاذ خاص ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے شاگرد حماد بن ابی سلیمان رحمہ اللہ ہیں ۔ نخعی علقمہ رضی اللہ عنہ کے تربیت یافتہ تھے اور علقمہ رحمہ اللہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساختہ پر داختہ تھے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے مکہ میں عطاء [ابن ابی رباح] رحمہ اللہ سے بھی استفادہ کیا تھا۔امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ محدثین کے مسلک پر گامزن تھے۔ آپ نے [سفیان]ابن عیینہ سے تعلیم پائی ۔ ابن عیینہ عمرو بن دینار کے شاگرد تھے۔ وہ ابن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پروردہ و تربیت یافتہ تھے۔ نیز آپ نے ہشام بن بشیر سے بھی اکتساب فیض کیا تھا۔ ہشام کا شمار حسن بصری اور ابراہیم نخعی کے اصحاب میں ہوتاہے۔نیز آپ کے اساتذہ میں سے عبدالرحمن بن مہدی ؛ ، وکیع بن جراح ؛ اور ان کے امثال بھی ہیں ؛ رحمہم اللہ ۔امام شافعی رحمہ اللہ کیساتھ بھی مجلس میں بیٹھا کرتے تھے۔امام ابو یوسف رحمہ اللہ سے بھی اکتساب علم کیا ؛ اور ان کے قول کو پسند فرمایا کرتے تھے۔ ایسے ہی محدث اسحق بن رَاہوَیہ اور ابوعُبَیْد رحمہم اللہ بھی اسی شاہ راہ پر گامزن رہے۔ یہی حال امام لیث اور اوزاعی رحمہما اللہ کابھی ہے؛ ان کی فقہ و علوم اہل مدینہ سے ماخوذ تھے اہل کوفہ سے نہیں ۔ فصل:....[امام مالک رحمہ اللہ اور علوم حضرت علی رضی اللہ عنہ ] [اشکال ]:شیعہ لکھتا ہے:’’مالکیہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد سے استفادہ کیا۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]