کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 388
یہ ابو عبدالرحمن اور دوسرے علماء اہل کوفہ جیسا کہ علقمہ، الاسود، شریح، والحارِث[بن قیس]التیمی، وزِر بن حبیش، عاصم بن ابی نجود رحمہم اللہ-جس پر قرآن پڑھا گیا-ان لوگوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے قرآن سیکھا۔ یہ لوگ مدینہ جاتے توحضرت عمر اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے علم سیکھا کرتے تھے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ان لوگوں نے ایسے اکتساب علم نہیں کیا جیسے حضرت عمر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے کیا تھا۔ ٭ شریح رحمہ اللہ آپ کے دور کے قاضی تھے جنہوں نے یمن میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے تعلیم حاصل کی۔آپ فقہی مسائل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مناظرہ کیا کرتے تھے ‘ آپ کی تقلید نہیں کرتے تھے۔یہی حال قاضی عبیدہ سلمانی کا بھی تھا؛ وہ فرمایا کرتے تھے: ’’ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کیساتھ آپ کی اجتماعی رائے آپ کی انفرادی رائے سے زیادہ محبوب ہے۔ ٭ اہل مکہ و مدینہ نے بھی آپ سے[اتنا زیادہ ] علم حاصل نہیں کیا۔یہی حال اہل شام اور بصرہ کا ہے۔یہ پانچ بڑے شہر دونوں حجاز؛ دو عراقی شہر اور شام؛ یہاں سے علوم نبوت پھوٹا ہے۔ ایمان و قرآن اور شریعت کے علوم یہاں سے نکلے ہیں ۔ ان شہروں کے باسیوں نے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اکتساب فیض نہیں کیا۔اس لیے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان شہروں میں ایسے لوگ بھیج دیئے تھے جو انہیں قرآن و سنت کی تعلیم دیتے۔اہل شام کے پاس معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کو روانہ فرمایا ۔اور اہل عراق کی طرف حضرت عبداللہ بن مسعود اور حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہما اور دیگرصحابہ کو روانہ کیا۔ فصل:....[حضرت علی رضی اللہ عنہ اورعلم نحو] [اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ علم نحو کے واضع تھے۔آپ نے ابو الاسود سے کہا تھا۔ کلام کی تین قسمیں ہیں ۔ اسم، فعل، حرف۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابو الاسود کو اعراب کے اقسام بھی بتائے تھے۔‘‘ [جواب]: ہم کہتے ہیں :’’ علم نحو، علوم نبوت میں شمار نہیں ہوتا، بلکہ یہ ایک استنباطی علم ہے۔جوکہ قوانین ِزبان کی حفاظت کا ایک وسیلہ ہے۔اس زبان میں قرآن نازل ہوا۔ خلفاء ثلاثہ کے زمانہ میں لوگ اعراب پڑھنے میں غلطی کا ارتکاب نہیں کرتے تھے۔ اس لیے اس کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کوفہ میں سکونت پذیر ہوئے تو وہاں عجمی لوگ بودوباش رکھتے تھے جو اکثر اعراب میں غلطیاں کیا کرتے تھے اس لیے آپ نے علم نحو کی ضرورت محسوس کی۔نقل کیا گیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابو الاسود سے کہا تھا: اُنحُ ھٰذَا النَّحْوَ‘‘(اسی طریقہ پر چلیے) ۔بنا بریں اس علم کو نحو کے نام سے موسوم کیا گیا ۔ جس طرح دوسرے لوگوں (حجاج بن یوسف ثقفی) نے ضرورت کے پیش نظر نقطے ‘ خط نیز مدّ و شدّ وغیرہ علامات ایجاد کیں ؛اور اس طرح کے دیگر علوم بنا بر ضرورت ایجاد کیے۔پھر اہل کوفہ و بصرہ نے علم نحو کی آبیاری کی اور خلیل نے علم عروض وضع کیا۔
[1] ابو عبدالرحمن بن حبیب بن ربیعہ السلمی الکوفی القاری ۔ابن سعد نے طبقات ۶؍۱۷۲ میں لکھا ہے: آپ نے حضرت علی؛ اور حضرت عبداللہ اور عثمان رضی اللہ عنہم سے روایات نقل کی ہیں ۔سن بہتر ہجری میں نوے سال کی عمر میں کوفہ میں انتقال ہوا۔ آپ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد تھے۔