کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 387
عمر رضی اللہ عنہما کے علم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علم پر فضیلت دیتے تھے۔ اور ہمیشہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول کے برعکس حضرت عمر اورعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کے قول کے مطابق فتوی دیا کرتے تھے۔
فصل:....[بچپن کا علم ]
[ اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’بچپن میں جو علم حاصل کیا جائے وہ پتھرپرلکیر ہوتا ہے۔ بنابریں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علوم دوسروں کے علوم سے بڑھ کرہوں گے۔ نیز اس لیے بھی کہ آپ کے استاد(نبی) ہر لحاظ سے کامل تھے اور شاگرد( علی) میں قبول علم کی استعداد موجود تھی۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]
[جواب]:ہم کہتے ہیں :یہ رافضی کے حدیث سے جاہل ہونے کی نشانی ہے۔ یہ ایک عامیانہ کلام ہے، اور حدیث رسول نہیں ہے۔اس حکایت کے عین برخلاف اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تائید فرمائی تھی؛انہوں نے امور ایمان کتاب و سنت کا علم [بڑی عمر میں ] سیکھا تھا، تاہم اﷲتعالیٰ نے ان پر اس کی تحصیل آسان کردی تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بھی یہی حال ہے۔ ابھی وحی تکمیل پذیر نہیں ہوئی تھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عمر تیس سال کو پہنچ گئی ۔ آپ نے قرآن بڑی عمر میں یاد کیا تھا۔ اس میں اختلاف ہے کہ آیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پورا قرآن یاد تھا یا نہیں ؟ اس میں دوقول ہیں ۔
٭ انبیاء کرام علیہم السلام اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے بڑے عالم ہوتے ہیں ؛لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کے علاوہ کسی بھی نبی کو چالیس سال کی عمر سے پہلے مبعوث نہیں کیا۔[یہ علمی وعقلی پختگی کا دور ہوتا ہے]۔
٭ دوسری طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سب کے لیے عام ہوا کرتی تھی۔اس مقصد کے لیے آپ نے کسی کو خاص نہیں کیا ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو دیکھیے انھوں نے صرف تین سال کے عرصہ میں وہ کچھ یاد کر لیا تھا جو دوسرے صحابہ طویل عرصہ میں بھی یاد نہ کر سکے تھے اور آپ دوسرے تمام صحابہ کی نسبت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ زیادہ بیٹھا کرتے تھے۔
فصل:....[علوم علی رضی اللہ عنہ سے استفادہ]
[اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علوم سے استفادہ کیا۔‘‘
[جواب]: ہم کہتے ہیں : یہ باطل ہے۔ اس لیے کہ کوفہ جو کہ آپ کا گڑھ تھا وہاں کے لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کوفہ آنے سے پہلے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایمان ‘قرآن‘تفسیر‘فقہ ‘ اور سنت سیکھے۔ جب [روایت حدیث میں ] کہا جائے کہ :ابو عبدالرحمن نے ان پر پڑھا‘‘اس کا معنی ہے کہ انہیں حدیث پیش کی [اور سکھائی]۔ حضرت ابوعبدالرحمن نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کوفہ آنے سے پہلے قرآن حفظ کرلیا تھا۔[1]
[1] یہ روایت بھی صحیح ہے۔ اس کی تفصیل کے لیے دیکھیں : البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی رضی اللّٰہ عنہم باب مناقب عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ (ح:۳۶۷۷۔۳۶۸۵) صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب من فضائل عمر رضی اللّٰہ عنہ (ح:۲۳۸۹)۔