کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 386
اﷲتعالیٰ سے ملاقات کرنا مجھے تجھ سے عزیز تر ہو۔‘‘ہاں اللہ کی قسم ! میرا یقین تھا کہ اﷲتعالیٰ آپ کو دونوں ساتھیوں ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر) کے ساتھ ملا دے گا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اکثر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کرتا تھا کہ میں اورابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما آئے،میں اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما داخل ہوئے؛میں اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نکلے۔‘‘مجھے امید تھی کہ اﷲتعالیٰ آپ کو ان دونوں ساتھیوں کی ملاقات نصیب کرے گا۔‘‘[1]
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رات کو بیٹھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ مسلمانوں کے مسائل میں گفتگو کیا کرتے تھے ۔
جن مسائل میں حضرت عمر اورحضرت علی رضی اللہ عنہما کا اختلاف ہوا ہے ؛ اکثر طور پر ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہی راجح ہوا کرتا تھا۔ مثلاً حاملہ عورت کا خاوند فوت ہو جائے اس کی عدت کا مسئلہ(عدت ِوفات اور وضع حمل میں سے جس کی مدت بعید تر ہو) ؛ اورحرام کا مسئلہ ۔جیسا کہ اس سے پہلے گزر چکا ہے۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اہل مدینہ کا مذہب اہل عراق کے مذہب کی نسبت زیادہ راجح ہے۔
اہل مدینہ غالب طور پر حضرت عمر اور حضرت زید رضی اللہ عنہما کی اتباع کرتے ہیں جبکہ اہل عراق حضرت ابن مسعود اورحضرت علی رضی اللہ عنہما کی اتباع کرتے ہیں ۔صورت حال یہ تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو بات بھی کہتے تو اس میں حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا جو فتوی ان لوگوں کیساتھ تھا؛ وہ ان کے انفرادی فتوی سے زیادہ قوی ہے ۔جیساقاضی عبیدہ سلمانی رحمہ اللہ نے آپ سے کہا تھا:
’’ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ متفقہ رائے آپ کے انفرادی قول سے ہمیں زیادہ عزیز ہے۔‘‘[تخریج گزرچکی ہے]
حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہمارے لیے دروازہ کھول دیتے توہم اندر داخل ہوجاتے۔ہم آپ کو سہل ونرم پاتے۔آپ کے پاس ایک مسئلہ پیش ہواکہ:ایک آدمی اپنے والدین اور بیوی اور اس کے والدین کو چھوڑ کر مر گیا ہے(اس کی میراث کا کیا حکم ہے؟)۔توآپ نے فرمایا:’’ لِلأمِ ثلث الباقِی۔‘‘’’ ماں کے لیے باقی کا تیسرا حصہ ہے ۔‘‘پھرحضرت عثمان وعلی وابن مسعود وزید رضی اللہ عنہم نے بھی [اس مسئلہ میں ]آپ کی اتباع کی۔‘‘
مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ حضرت سعید بن المسیب رحمہ اللہ تابعین میں سب سے بڑے عالم تھے۔آپ کے فقہ کی اصل بنیاد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے تھے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی ان سے اس بارے میں سوال کیا کرتے تھے۔
ترمذی میں [ ہی حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ]ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر رضی اللہ عنہ ہوتے ۔‘‘ ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔[سبق تخریجہ]
یہ بھی جان لیجیے کہ اہل کوفہ اور صحاب ابن مسعود، جیسے کہ علقمہ، الاسودِ، شریح، والحارِث بن قیس، وعبیدہ السلمانی، ومسروق، وزِر بنِ حبیش، ابی وائل رحمہم اللہ ،اور ان کے علاوہ دیگر بہت سارے علماء ایسے تھے جو عبداللہ بن مسعود اور حضرت
[1] صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب تفاضل اہل الایمان فی الاعمال(ح:۲۳)، صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ (ح:۲۳۹۰)
[2] اسد الغابۃ(۴؍۱۶۶)۔