کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 385
ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اُمم سابقہ میں مُلہَم موجود تھے، اگر میری امت میں کوئی ملہم من اللہ ہوا تو وہ عمر رضی اللہ عنہ ہیں ۔‘‘
ملہم یا محدث وہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف الہام ہو؛ یہ بشری تعلیم سے زائد ایک قسم کی تعلیم ہے۔
[بخاری ومسلم کی متعدد احادیث سے بھی حضرت ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما کے علم و فضل پر روشنی پڑتی ہے۔ مثلاً]متفق علیہ روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’مجھے خواب میں ایک پیالہ پیش کیا گیا جس میں دودھ تھا، وہ میں نے پی لیا، یہاں تک کہ سیر ہونے کا اثر میرے ناخنوں میں ظاہرہونے لگا، پھرجو بچ گیا میں نے وہ عمر رضی اللہ عنہ کو دے دیا۔ صحابہ نے عرض کیا:’’ پھر آپ نے اس کی کیا تعبیر فرمائی؟ فرمایا:’’ دودھ سے علم مراد ہے۔‘‘
ایسی کوئی روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں نہیں ہے۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
’’میں نے خواب میں دیکھا کہ لوگوں کو میرے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے قمیصیں پہن رکھی ہیں ، بعض کی قمیص سینہ تک پہنچتی ہے اور بعض کی اس سے نیچے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب پیش کیے گئے تو وہ قمیص کا دامن کھینچتے ہوئے گزرے۔ لوگوں نے پوچھا:’’ پھر آپ نے اس کی کیاتعبیر کی؟ فرمایا۔ قمیص سے دین مراد ہے۔‘‘ [1]
یہ دونوں احادیث صحیح ہیں جو کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علم و دین کی شہادت دیتی ہیں ۔ ایسی کوئی روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے منقول نہیں ہے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شہادت پائی تو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا:
’’ علم کے نو حصے رخصت ہو گئے اور ایک حصہ باقی رہا، جس میں سب لوگ شریک ہیں ۔‘‘ [2]
اور اس میں کوئی شک و شبہ والی بات نہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر تمام صحابہ سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا التزام کیا کرتے تھے۔ ان کے بعد پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا درجہ آتا ہے۔ آپ دیگر تمام صحابہ کی بہ نسبت بشمول حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ؛ زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں بیٹھا کرتے۔ [اور مسلمانوں کے معاملات میں مشاورت کرتے]
صحیحین میں ہے: حضرت عبد اﷲبن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ:
’’ جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی نعش کو چارپائی پر رکھا گیاتو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے اس کااحاطہ کر لیا اور آپ کے لیے دعائے خیر کرنے اور توصیفی کلمات کہنے لگے ۔ اتنے میں ایک شخص نے اچانک آکر میرا کندھا تھام لیا۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔ انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے رحم کی دعا فرمائی اور کہا:’’ اے عمر! تو نے اپنے پیچھے کوئی آدمی نہیں چھوڑا جس کے اعمال کو لے کر